بی این پی سینیٹ الیکشن ۔کمیٹی رپورٹ
تحریر: اعظم الفت
دی بلوچستان پوسٹ
بہت پہلے بلوچستان میں سینیٹ کے انتخابات کے دوران ووٹ بیچنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا، لیکن اب یہ عام ہوگیا ہے، سینئر کہتے ہیں کہ پیسے لینے کا یہ سلسلہ 1990 سے شروع ہواتاہم اس دور میں بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کے ارکان اور جے یوآئی کے لوگ اپنے ہی لوگوں کو ووٹ دیتے تھے، وہ بکتے نہیں تھے۔’ہمیشہ سے بلوچستان کی نشستوں پر باہر سے آنے والے سرمایہ کاروں کا عمل دخل جاری رہا۔ اورایسے لوگ منتخب ہوئے جن کا ب6لوچستان سے تعلق نہیں رہا،1990 میں زرات خان، صدرالدین ہاشوانی اور اکرم ولی محمد کو بلوچستان سے سینیٹر منتخب کرایا گیا۔ اس وقت ایک ایم پی اے کی قیمت 50 لاکھ روپے تک تھی،اب تو 70 کروڑ روپے بولی لگی اور باہر کا بندہ سینیٹر بن بھی گیا اور بی این پی مینگل کے اراکین نے اس غیر بلوچستانی کومنتخب کرانے میں اہم کرداراداکیا۔
بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی تعداد 65 ہے۔ دیگر اسمبلیوں کے مقابلے میں یہ سب سے کم تعداد ہے لیکن چونکہ سینیٹ میں تمام وفاقی اکائیوں کی نمائندگی برابر ہے اس لیے سینیٹ کے انتخاب کے لیے باقی تین اسمبلیوں کے ووٹ بلوچستان اسمبلی کے 65 ووٹوں کے برابر ہوتے ہیں۔اس صورتحال کے باعث سینیٹ کے نصف اراکین کے انتخاب کی صورت میں ایک جنرل نشست پر کامیابی کے لیے بلوچستان سے آٹھ سے نو ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پنجاب میں ایک سیٹ کے لیے 40 سے زائد ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
سینیٹ الیکشن کے دوران مختلف جماعتوں کے ساتھ بی این پی مینگل کے چارامیدواروں کے نام منظر عام پر آئے ،قاسم رونجھو، ساجدترین ایڈووکیٹ ،جبکہ خواتین میں پروفیسرطاہرہ احساس جتک اور شمیلہ اسماعیل کے نام شامل تھے، لیکن یہ اوربات ہے کہ نتائج اسکے برعکس آئے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے وہی فارمولہ طے کی جو قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ٹکٹوں کی تقسیم پر کی تھی، بی این پی نے نئی نویلی شرکت کرنے والوں کو ٹکٹ دی جیسے کہ دوکروڑ روپے پارٹی فنڈدینے پر ڈاکٹر شہناز نصیربلوچ قومی اسمبلی خواتین نشست سے منتخب ہوئی، پھر اسی فارمولے کومد نظر رکھ کر بی این پی مینگل کی سینٹرل کمیٹی نے سینیٹ الیکشن میں سرمایہ دارقاسم رونجھو،اور تربت کی سرمایہ دارخاندان نسیمہ احسان کو ایک رات میں پارٹی میں شمولیت کرائی گئی اور سینیٹ کا ٹکٹ دینے کے ساتھ کامیاب بھی کرائی گئی ،سینیٹ الیکشن اور کارکن دوست رہنماسینئر قانون دان ساجد ترین ایڈووکیٹ ہارگئے ،اور جس طرح میں نے ذکر کیا کہ خواتین کی نشست پر سینٹرل کمیٹی نے جن ناموں کو تجویز کی پروفیسرطاہرہ احساس جتک اورشمیلہ اسماعیل کے ناموں کا پتہ بھی نہیں چل سکا کہ ان کو ووٹ ملے بھی یا نہیں اوراسکے بعد طویل خاموشی ۔
بی این پی مینگل کے سرکردہ رہنما کہتے ہیں حالیہ سینیٹ الیکشن کے نتائج پر سرداراختر مینگل سیخ پا ہوئے اور کمیٹی بنانے کی ہدایت کی، ، کمیٹی بن بھی گئی اور کمیٹی کافی تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ مرکزی قیادت اورسیکریٹری جنرل کے حوالے کردی، اب مہینہ گزر گیا لیکن کمیٹی کی رپورٹ پبلک نہیں ہوئی۔’حالانکہ کمیٹی نے بی این پی مینگل کے دواراکین کو کنفرم جبکہ مزید تین اراکین کو مشکوک قراردینے کی رپورٹ مرکزی قیادت یعنی سرداراختر مینگل کو بھیجواچکی ہے۔
لیکن باخبر ذرائع نے بتایا کہ بی این پی کے دواراکین اسمبلی براہ راست پیسے لینے میں ملوث پائے گئے،کمیٹی نے ایک سینئر پارلیمنٹرین جواپنے کو سب سے زیادہ بلوچستان کا ہمدرداورعوام کا ہیرو بننے کی کوشش کرتا ہے جبکہ دوسری ایک خاتون رکن ہے جن کا تعلق سریاب سے ہے کے نام افشاں کی ہے، جبکہ مزید تین اراکین کو مشکوک قراردیا گیا ، کمیٹی اور مرکزی قیادت ایک ماہ سے کرپٹ اراکین کے نام افشاں کرنے سے کتراتے ہیں۔ کیا وہ ان اراکین کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں ہونگے؟ ہاں قاسم رونجھو کی کامیابی پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ اس نے کس کو پیسے دیئے اور کامیاب قرارپائے؟ تاہم ورکردوست ساجدترین ایڈووکیٹ کا خود کہنا ہے کہ میں نے پیسے نہیں دیئے اور پیسے کیوں دوں مجھے تو پارٹی نے سلیکٹ کرنا ہے۔ پارٹی نے ٹکٹ دی۔
سینئر دوست کہتے ہیں کہ بلوچستان میں سینیٹ کے انتخابات کے دوران کبھی دلچسپ صورتحال بھی سامنے آتی ہے۔ شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ پچھلے سینیٹ الیکشن کے دوران حسین اسلام بھی بلوچستان آئے تھے، انہوں نے ٹیکنوکریٹس کی نشست کے لیے کاغذات جمع کرائے لیکن ان کے کاغذات پہلے یہاں سے اور بعد میں سپریم کورٹ سے بھی مسترد ہوگئے۔انہوں نے بتایا: ‘حسین اسلام نے چونکہ پہلے پیسے دے دیے تھے اور ایم پی ایز نے انہیں پیسے واپس کرنے سے انکار کردیا تھا، لہذا اس کا حل اس طرح نکالا گیا کہ انہیں عبدالقدوس بزنجو نے مشیر بنالیا اور فشریز کا محکمہ دے دیا۔’بقول شہزادہ ذوالفقار: ‘چونکہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں سندھ کے غیر قانونی ٹرالرز آتے ہیں، جو غیر قانونی شکار کرتے ہیں، لہذا حسین اسلام کو یہ محکمہ دیا گیا تاکہ وہ اپنے ڈوبے ہوئے پیسے نکال سکیں۔’
شہزادہ سمجھتے ہیں کہ یہ المیہ ہے کہ بلوچستان کو ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ باہر کے لوگ یہاں آتے ہیں، ووٹ خریدتے ہیں اور سینیٹر بن جاتے ہیں،اوراب تو قوم پرست بھی اس عمل کو معیوب نہیں سمجھتے ،بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کاحالیہ سینیٹ الیکشن کے نتائج ایک بڑی مثال ہے یہ جماعت بھی سرمایہ داروں کو تحفظ دینے کی پارٹی ہے غریب ورکر وہیں کا وہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘چونکہ عبدالقدوس کے دور میں جو لوگ بکے وہی، اب بلوچستان عوامی پارٹی کا حصہ ہیں، لہذا میں نہیں سمجھتا کہ یہ لوگ دوبارہ نہیں بکیں گے۔’
بلوچستان سینیٹ کے انتخابات اس وجہ سے آئیڈیل ہیں کہ یہاں تعداد کم ہونے کے باعث ووٹ خریدنے میں آسانی ہوتی ہے،تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ووٹ بیچنے والوں میں سے اکثر لوگوں کا تعلق مسلم لیگ ن ، مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی سے ہوتا ہے، جو اب یہ کام کھلے عام کرتے ہیں۔اور اب قوم پرست بھی دلڑے سے اس عمل میں شامل ہوگئے ہیں ۔
سینیٹ انتخابات میں باپ پارٹی کی سفارش اور پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ سے محروم ہونے کے بعد آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے نو منتخب سینیٹر عبدالقادر بعد میں ڈرامائی انداز میں پی ٹی آئی میں شمولیت بھی اختیارکی، سینیٹ انتخابات کے لیے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی قیادت نے بلوچستان سے جنرل نشست پر انتخاب لڑنے کے لیے تعمیراتی شعبے سے وابستہ بزنس ٹائیکون عبدالقادر کو ٹکٹ دیا تھا۔
جس پر پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت نے بلوچستان میں پارلیمانی لیڈرز اور پارٹی کے ایم پی ایز سے مشاورت کے بغیر فیصلہ لینے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔اورشدید احتجاج کیا گیا ،پارٹی کے بلوچستان چیپٹر کی جانب سے شدید تنقید کے بعد عبدالقادر سے ٹکٹ واپس لے کر ظہور آغا کو دے دیا گیا تھا۔(بی این پی مینگل کے کسی کارکن نے قومی وصوبائی اسمبلی وسینیٹ کے ٹکٹس اور نتائج پر کوئی احتجاج نہیں کیا ،)
بعدازاں ڈرامائی طور پر پی ٹی آئی کے سید ظہور آغا سمیت بی اے پی کے 3 امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے تھے، ظہور آغاکا کہنا تھا کہ بی اے پی کی قیادت کی درخواست پر وزیراعظم عمران خان کے دیے گئے حکم پر وہ سینیٹ انتخابات سے دستبردار ہوئے۔چنانچہ ان کے دستبردار ہوجانے کے بعد بلوچستان سے پی ٹی آئی کے کسی امیدوار نے سینیٹ انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا جبکہ عبدالقادر نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا،دوسری جانب بلوچستان میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی رہنما سردار یار محمد رند نے کے بیٹے آزاد نشست پر سینیٹ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تاہم پارٹی قیادت انہیں انتخابات سے قبل راضی کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ’پیسے والے امیدواروں کی جانب سے بلوچستان کی جانب رخ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کم اراکین سے ڈیلنگ کرنا پڑتی ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ماضی میں جہاں باہر سے آنے والے امیدوار پیسہ لگاتے رہے ہیں بلکہ خود بلوچستان کے لوگ بھی پیسے کی بل بوتے پر کامیاب ہوتے رہے ہیں۔‘
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں