کچھ تبدیلی کے بارے میں
تحریر: پیرک نتکانی
دی بلوچستان پوسٹ
کسی بھی معاشرے کی نشوونما کیلئے تبدیلی کا عمل ضروری ہوتا ہے ورنہ سماج منجمد ہو کر اپنی شناخت کھو دیتا ہے۔آج میں اور آپ بلوچ معاشرے میں کچھ تبدیلی کے بارے میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ جب میں بلوچ معاشرہ لکھ رہا ہوں تو اسکا مطلب ایک انفرادی شخص ہے کیونکہ معاشرے کا تعلق میرے اور آپ کے مابین تعلق پر انحصار کرتا ہے ۔میرا اور آپ کا رشتہ ہی معاشرے کو بناتا ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے اندر تبدیلی لے آئیں تو معاشرہ تبدیل ہو سکتا ہے۔
ہم ایک دوسرے سے واقف ہونے کے باوجود ہم ایک دوسرے کو بات سمجھا نہیں سکتے ۔ ہمارے تعلق کی بنیاد کیا ہے؟ آپ اور میرے درمیاں تعلق داری ،آپ اور دوسرے فرد کے درمیان تعلقات جسے معاشرہ کہتے ہیں کی بنیاد کیا ہے آپ اور میرے درمیان بد نیتی کا عنصر موجود ہے جو احترام کی شکل اختیار کر لیتا ہے کیونکہ ہم دونوں افراد مرشد اور مرید والے رویے پر عمل پیرا ہیں۔ جب باہمی طور پر بد نیتی موجود ہو تو حاکمیت کو جنم دیتی ہے جس کے باعث انتشار اور نفرت جنم لیتی ہے اسطرح معاشرے میں مزید افراتفری پیدا ہوتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو باہمی ادراک اور فہم اس وقت پیدا ہو گا جب ہم آپ اور میں بیک وقت ملیں گے ۔ یہ صورت_حال اس وقت پیدا ہو گی جب ہم اپنے دوستوں اور قوم کے لوگوں کے متعلق اپنے اندر محبت اور چاہت کو جنم دیں گے ۔بے لوث اور محبت سے بھر پور اظہار و فہم اس وقت وجود میں آتا ہے جب ہم ایک دوسرے سے برابری کی سطح پر ملتے ہیں۔
ہم جو اس معاشرے کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن اپنے کو پرکھنے اور تبدیلی کے پیرامیٹرز سے نہیں گزارنا چاہتے ۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارا باطن کچھ اور ہے ظاہر کچھ اور ۔ بلوچ معاشرے میں موجود ظلم و ستم جو ہم پر مسلط کیا گیا ہے اس کے بارے میں ہماری کیا رائے ہے ؟ اسکو ختم کرنے کیلئے ہمارا لائحہ عمل کیا ہے ؟ ہماری اپنی سوچ کیا ہے؟ کیا ہم جو سوچ رہے ہیں وہ کر بھی رہے ہیں؟ یا پھر جو رٹی رٹائی باتیں ہیں انہیں پر قائم ہیں ۔ یہ تو بالکل الفاظ رٹنے کے مقابل ہو گیا ۔ اسطرح آپ جتنا علم حاصل کریں جتنی کتابیں پڑھیں آپ جب تک خود کو تبدیل نہیں کریں گے معاشرے کو کس طرح تبدیل کریں گے۔
انسان جب تک اپنے آپ کا ادراک حاصل نہیں کرتا اس وقت تک وہ معاشرے کا ادراک نہیں کر سکتا ۔ میں بار بار زات کے ادراک کی بات کر رہا ہوں اسکا ہرگز مطلب نہیں کہ خود کو سادھو بنا لیا جائے ۔ ہمارے معاشرے میں موجود ظلم و ستم ہم پر کتنا اثر انداز ہو رہا ہے؟ ہوشیار رہیں میرے الفاظ پر مت جائیں اپنے آپ سے سوال کریں کہ بلوچ معاشرے میں ظلم و ستم جو ہم پر مسلط کیا گیا ہے اس سے ہمیں کوئی اثر ہو رہا ہے؟ اگر یہ ظلم و ستم برقرار رہے تو ہمیں کوئی اثر ہو گا؟کیا ہم صرف ایک مخصوص سرکل میں رہنے کی خاطر تو یہ لبادہ نہیں اوڑھ رہے ۔ کہیں اس سے ہمارے زہنی ،سماجی اور معاشی مفاد تو نہیں یقین جانیے ہمیں تبدیل ہونے کی ضرورت ہے ورنہ ہم تماشائیوں کی طرح ہیں اور ایسے تماشائی جن کو کھیل سے کوئی سروکار نہیں ۔
مجھے نہیں معلوم میں کس حد تک آپکو تبدیلی کے بارے میں یا اسکی افادیت کے بارے میں بتانے میں کامیاب ہوا ہوں لیکن میں آخر میں اتنا کہنا چاہوں گا اپنی ذات کے بارے میں ادراک حاصل کیجیے ۔اسطرح ہم میں تخلیقی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ورنہ اسکے بغیر مباحثوں میں شریک ہونا ،سنی سنائی باتیں رٹنا محض وقت کا اور قوت برباد کرنے کے مترادف ہے ۔ایک فرد کی اندرونی نفسیاتی تبدیلی کے بغیر ظاہری تبدیلی بے وقعت ہے ۔اندرونی تبدیلی سے ایک فرد میں تخلیقی صلاحیت جاگتی ہے جس سے باہمی تعلقات بھی تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں اور یوں معاشرے میں تبدیلی کا عمل رونما ہوتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔