میرے شہر کے کچے مکاں مت گراؤ – محمد خان داؤد

114

میرے شہر کے کچے مکاں مت گراؤ

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

جب عدلیہ بحریہ کے قبضے کو کچھ ارب کے عیوض جائز دے دے تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟
وہ غریب ہیں جن کے کچے مکاں یا تو نالوں کی کچی دیوار پر بنے ہوئے ہیں یانالوں کے اوپر یا نالوں کی اُوٹ میں ان کے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں کہ وہ کسی کو وکیل کر کے اپنے کچے مکانوں کو سرکار سے پکا کرالیں ان کے پاس نہ پہلے کچھ تھا نہ اب کچھ ہے،وہ جو پہلے ابا بنے اب دادا بن گئے ہیں ان کا جیون بھی ان ہی نالوں پر بنے کچے مکانوں میں گزرا ہے۔ان کے بچوں کا جیون بھی ان ہی کچے مکانوں میں گزرا اور اب ان کے پوتوں کا جیون ان کچے مکانوں میں گزر رہا ہے۔
جب ان کے پہلے بچے کی پیدائش ہوئی تو یہ اپنی کم آمدنی سے نالوں کی اُوٹ میں کچے مکان کا پہلا بلاک رکھ رہے تھے اب جب ان کے گھر میں پہلے پو تے کی پیدائش ہوئی ہے تو ان کے کچے مکان کی سب ہی دیواریں گرائی جا رہی ہیں
کیوں؟
اس لیے کہ سرکار کہتی ہے کہ یہ قبضہ گیر ہے
ملک بھی اس کا
شہر بھی اس کا
بڑے شہر میں
تاریک وہ تنگ مکاں بھی اس کا
پر پھر بھی سرکار فرماتی ہے کہ اس نے قبضہ کیا ہے!
ہم دیکھ چکے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی عدلیہ نے ملک کے سب سے بڑے قبضہ گیر کو کیسے رعائت دی اور وہ کیسے پیسے دیکر چھوٹ گیا،چھوٹا ہی کیا پر قبضہ کی ہوئی زمیں بھی کچھ اربوں کے عیوض لے گیا۔

پر جو اس شہر کے باسی ہیں جن کا جنم جنم یہاں گزرا ہے جنہوں نے اس شہر سے محبوبہ سی محبت کی ہے،جنہوں نے اس شہر کی زندگی میں رنگ بھرے ہیں،جنہوں نے اس شہر سے محبوبہ سی محبت اور ماں سی وفا کی ہے،جنہوں نے اس بڑے شہر میں چھوٹے کچے مکان بنائے تھے،جنہوں نے اس شہر کی مانگ میں زندگی کا سندور بھرا ہے، جنہوں نے شہر کو جینا سکھایا ہے، جنہوں نے شہر کے شور میں شہر کو ہی چلنا سکھایا، جنہوں نے اسی شہر میں اپنے ہاتھوں پر حنا کے رنگ سجائے، جنہوں نے اسی شہر بے نام کو نام دیا کوئی حصہ کورنگی ہوا، تو کوئی اورنگی۔

جنہوں نے اسی شہر بے اماں میں جہنم سے دن بھی دیکھے،جنہوں نے اسی شہر سے محبت کو تلاشا اور محبت کے دامن میں اپنا سر رکھا،جنہوں نے بہت سی مصیبتیں سہہ کر اس شہر میں زندگی کے رنگ بھرے۔
یہ شہر ان کے احسان کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا
ان کے پاس بہت سے پیسے نہیں اس لیے سالوں گزرنے کے باوجود بھی ان کے مکاں کچے اور بوسیدہ ہی رہے،آج بھی ان کے کچے مکانوں کی اُوٹ میں گندے نالے بہتے ہیں
انہوں نے گندے نالوں پر مکان نہیں بنائے پر امیر شہر نے اپنی گندگی کا رخ ان کی طرف کر دیا ہے
وہ جو کسی سے کوئی شکایت نہیں کرتے،کیونکہ وہ شہر کے دکھ جانتے ہیں اور شہر ان کا دکھ
یہ ان میں سے نہیں کہ جب شہرمیں بارشیں ہوئی تھیں اور پوش علاقوں کے عالیشان گھروں میں بارش کا پانی بھر گیا تھا اور اٹالین فرنیچر اور فرانسسی برتن ایسے تیر رہے تھے جیسے تھوڑے سے پانی میں کسی گندی بستی کے بچے تیرتے ہیں اور خوش ہو تے ہیں جب ان امیروں نے دل کھول کر اس شہر یاراں کو کوسہ تھا
پر وہ جب بھی خاموش تھے جب بہت سی برساتوں میں بہت سا پانی نالے کے پانی سے مل کر ان کے کچے مکانوں کو بہا لے گیا تھا جب یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ گھر کا دروازہ کون سا ہے اور کھڑکی کون سی
جب برستی بارشوں اور بہتے نالوں نے گلیوں اور مکانوں کا فرق مٹا دیا تھا
انہیں تو جب بھی اس شہر یاراں سے کوئی شکایت نہ تھی
جب انہوں نے اپنی سب چیزوں کو جانے دیا بس ماؤں نے اپنی بہانوں میں اپنے ان بچوں کو سنبھالے رکھا جو چاند کی پہلی کاش کی طرح چھوٹے تھے بہت چھوٹے۔

انہوں نے بارشوں کے بعد سب کچھ پھر سے ایسے جوڑا ہے جیسے پرندے بچوں کی پیدائش سے پہلی تنکا تنکا جوڑ کر درخت کی شاخوں پر تنکوں سے کچا آشیانہ جوڑتے ہیں اور بہت خوش رہتے ہیں
یہ بھی تو شہر امیراں کی کچی بستیوں کے باسی ہیں
اور تنکا تنکا جوڑ کر ان ہی گلیوں میں اپنا مکاں جوڑتے ہیں
اور پھر ان مکانوں میں محبت کا پہلا بوسہ لیتے ہیں
یہ قبضہ گیر نہیں ہیں
یہ شہر کے بنانے والے معمار ہیں
ان کے کچے مکاں کراچی سے بھی قدیم ہیں
کراچی کی روح ان ہی کچے مکانوں سے ہوکر گزرتی ہے
یہ بہتے نالوں کی اُوٹ پر آکہ نہیں بیٹھے
امیروں نے اپنی گندگی کا رُخ ان کی طرف کر دیا ہے
یہ اسی شہر کے باسی ہیں
یہ ریڈ انڈین نہیں
یہ انڈیجینس ہیں
ان کے مکاں بھی یہی ہیں
ان کی قبریں بھی یہی ہیں
پر اب کی بار شہر پر پھر سے مافیا کا قبضہ ہو رہا ہے
ان کے پاس بہت سا پیسہ ہے
پہلے یہ شہر پر قبضہ کرتے ہیں
پھر عدلیہ کو خریدتے ہیں
اور بہت سا پیسہ دیکر شہر کی روح پر قابض ہو جاتے ہیں
پر اب کی بار شہر یاراں خود کہہ رہا ہے
کورنگی ہو یا اورنگی
شمال ہو یا جنوب!
میرے شہر کے باسیوں کے
کچے مکان مت گراؤ۔۔۔۔
ان کچے مکانوں میں
محبتوں کو پلنے دو
محبتوں کو پلنے دو


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں