منشیات ایک معاشرتی لعنت – زرینہ بلوچ

741

منشیات ایک معاشرتی لعنت

تحریر: زرینہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

منشیات ایک ایسی چیز ہے جو شروع شروع میں آپکو سکون بخشتا ہے اور لذت فراہم کرتا ہے، کچھ وقت کیلئے آپ اپنا غم پریشانی سب بھول جاتے ہیں لیکن کچھ وقت بعد جب نشے کا اثر ختم ہوجاتا ہے تو آپ پھر سے وہی انسان بن جاتے ہیں-

ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں۷۴٪ لوگ نشے میں مبتلا ہیں۔ بعض لوگ نشے کو بوریت دور کرنے کیلے استعمال کرتے ہیں کچھ اپنے شوق کیلے اور کچھ لوگ ڈپریشن دور کرنے کیلئے-اس دوران لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں یا نظرانداز کرتے ہیں وہی لوگ بہتر جانیں، لیکن یہ نشہ انکے لیے ایک خطرناک چیز ہے جو انہیں اندر سے آہستہ آہستہ ختم کر رہا ہوتا ہے، سگریٹ، شراب، شیشہ، افیون، تمباکو یہ سب چیزیں انسان کو اندر سے کھوکھلا بناتی ہیں اور جگر گرده پھیپھڑوں و دیگر اعضاء کو خراب کرنے کا باعث بنتی هے۔

سگریٹ، تمباکو، شیشہ اور باقی نشیلی چیزوں کی وجہ سے آج کل کینسر بہت پھیل رہا ہے- ہمارے معاشرے میں بہت سے نوجوان نشے کو ایک عام چیز سمجھتے اور شادی اور دوسرے خوشیوں کے موقع پر استعمال کرتے ہیں انہیں لگتا ہے کہ وه اپنی خوشی دوسروں کے ساتھ بانٹ رہے ہیں لیکن اصل میں اپنے اور اپنے پیاروں کی زندگی کے کچھ لمحے جینے کے چھین رہے ہیں۔ آج کے دور میں منشیات ہر ایک گلی اور محلے میں دستیاب ہوتی ہے آپکو آسانی سے مل جاتی ہے-

میرے خیال سےلوگ منشیات کو اس لیے غم کے دوران استعمال کرتے ہیں کیونکہ وه اپنے زندگی کے حقیقت سے بھاگنا چاہتے ہیں اور سچائی کو برداشت نہیں کرتے کیونکہ غم تو عارضی طور پر ختم هوجاتا ہےلیکن منشیات کی لت آپ کو آسانی سے چھوڑتا نہیں-

اگر منشیات وقت پر نہ ملے انسان بے سکون ہوجاتا ہے اپنا آپا کھو دیتا ہے غصہ کرتا ہے کیونکہ نشہ ایک ایسی چیز ہے، جاے چھوڑنے کیلے انسان کے اندر حد سے زیاده برداشت هونی چاہئے۔

شراب اگر کوئی حد سے زیاده ایک وقت میں پیتا ہے تو زہر بن سکتا ہے، انسان مر بھی سکتاہے – نشہ جو ایک زہر ہے، انسان کو آہستہ آہستہ ختم کرتا ہے۔

نوجوان قوم کی ریڑ کی ہڈی ہوتے ہیں، جسطرح ریڑ کی ہڈی کے بغیر انسان لاچار اور بے بس ہوجاتا ہے اسی طرح نوجوانوں کے بغیر قومیں برباد ہوجاتی ہیں- کوشش کریں، نوجوان نشے سے دور رہیں اور قلم اور کتاب کو اپنا نشہ بنا لیں، کتابوں اور قلم سے محبت کریں، انکے عادی بن جائیں-


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔