فرزانہ بلوچستان کی سسئی ہے
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
اُسے یاد کرو،یاد کرو اسے جس نے بہت رویا
یاد کرو اسے، جسے ایک دکھ نہ تھا، جس کے پلے تین دکھ تھے
تین۔۔۔
ماں کی بیچارگی کا دکھ،اپنی بے بسی کا دکھ
اور بھائی کے یوں گم ہوجانے اُٹھائے جانے کا دکھ
اُسے یاد کرو،یاد کرو اسے جس کے قدموں نے بہت سفر کیا
بن منزل کے سفر،طویل سفر تھکادینے والا سفر
یاد کرو اسے جس کی جوتی شاہ لطیف کے تمر سے بھی نہیں اُٹھائی جاتی۔
یاد کرو اسے جو اپنے بھائی کی گمشدگی پر ایسے بے چین رہی جیسے موروں کے مر جانے پر مورنیاں پریشان ہوتی ہیں۔
وہ بھی تو اس کا مور بھائی تھا
جس کی بے چینی دیکھ کر میں ایاز کے اس شعر کو سمجھ پایا کہ
”ویو وسکارے میں مور مری
تھی کیڈیون دانھون ڈیل کرے”
اور میں جان پایا کہ موروں کے مر جانے پر مورنیاں ایسے ہی ماتم کیا کرتی ہیں
یاد کرو اسے جو اپنے بھائی کی تلاش میں گھر سے چلی پھر گھر کو لوٹی ہی نہیں
وہ گھر کی گلی بھول گئی اور گھر ہمیشہ اسے یاد کرتا رہا
جسے خود رونا تھا،پر وہ کئی سالوں تک ماں کے آنسو خشک کرتی رہی
جسے دردِ دوا بننا تھا وہ خود ہی دل کا درد لیے بیٹھ گئی
نہیں معلوم کہ اس کے مقدر میں سفر کس نے لکھے
پر جس نے بھی لکھے وہ خود نہیں جانتا تھا کہ اسے اتنا چلنا پڑے گا
اس نے بہت سے سفر جھیلے
اور سفر آساں نہیں ہوتے
اگر سفر آساں ہوتے،تو وہ سب کچھ ہوسکتے تھے
پر سفر نہ ہوتے
اور اس نے طویل دکھوں والے سفر جھیلے
اس کا نام فرزانہ مجید ہے
دھرتی کی فرزانہ مجید
بلوچستان کی فرزانہ مجید
مجھے نہیں معلوم کہ اس کا نام فرزانہ مجید کس نے رکھا
پر جس نے بھی رکھا وہ گیبرل گارشیا مارکیز کی اس بات سے آشنا نہیں تھا جس نے ”ارسلا“کے بارے میں لکھا تھا کہ
”ہم اِس کا نام ارسلا نہیں رکھتے۔اِس نام کے شخص کو بہت دکھ جھیلنے پڑتے ہیں“
وہ کیسے جان پاتے جنہوں نے اس کا نام فرزانہ رکھا کیونکہ گارشیا مارکیز کو ہی یہ بات بہت بعد میں سمجھ آئی تھی جب اس نے اپنی آنکھوں سے ارسلا کو دیکھا تھا کہ اس کے ساتھ کیا کچھ ہوا تھا پھر جب اس کے گھر میں پوتی کا جنم ہوا تو اس نے صاف صاف منع کردیا کہ اب اس کا نام ارسلا نہیں رکھا جائیگا کیونکہ ارسلا بہت دکھ جھیلتی ہے۔
کاش فرزانہ کا نام فرزانہ رکھنے والے سے پہلے کوئی یہ جان پاتا کہ فرزانہ بہت دکھ جھیلے گی اس لیے اس کا نام فرزانہ نہیں رکھتے!
اور کوئی آکہ فرزانہ کی ماں کے کانوں میں ایسی سرگوشی کر جاتا کہ
”ہم اِس کا نام ارسلا نہیں رکھتے۔اِس نام کے شخص کو بہت دکھ جھیلنے پڑتے ہیں!“
اس ماں نے اس کا نام فرزانہ تو رکھ دیا،اور فرزانہ نے کیا کیا دکھ جھیلے ہیں؟اس کا گواہ کوئی اور نہ بھی ہو تو پھر بھی وہ ماں تو ہے جو پہلے خود فرزانہ کے ساتھ دکھوں بھرا سفر کیا کرتی تھی،خود فرزانہ کے ساتھ رویا کرتی تھی،خود فرزانہ کے ساتھ اپنے بیٹے کو منتظر رہتی تھی۔ جو پہلے خود فرزانہ کے ساتھ دروازے کی ہلکی سی آہٹ پر بڑبڑا کر اُٹھ بیٹھتی تھی۔جو پہلے خود فرزانہ کے ساتھ رتجگے کیا کرتی تھی۔جو پہلے خود فرزانہ کے ساتھ اپنے ہاتھوں میں اپنے بیٹے ذاکر مجید کی تصویر لیے ماتم یار بنی رہتی تھی۔جو پہلے خود فرزانہ کے ساتھ شام ِ شہیداں اور صبح غریباں بنی رہتی تھی!
اب جب فرزانہ نہیں
تو پھر بھی اس ماں کا سفر تمام نہیں ہوا
اب جب فرزانہ نہیں تو پھر بھی اس ماں کی آنکھوں سے آنسو خشک نہیں ہوئے
اب جب فرزانہ نہیں تو پھر بھی منزل نہیں آئی اور سفر ہے جو طویل تر ہوتا جا رہا ہے
اب جب فرزانہ نہیں تو پھر بھی ماں کو رات بھر نیند نہیں آتی
اب جب فرزانہ نہیں تو پھر بھی رات کے رتجگے اور دن کی بے بسی ویسے کی ویسی ہی ہے!
اب جب فرزانہ نہیں پھر بھی دل بے قرار ہے
اب جب فرزانہ آس پاس نہیں پھر بھی وہ ماں اس گلی اور گھر کو نہیں لوٹی جس گلی جس گھر سے وہ فرزانہ کے ساتھ چلی تھی
اب جب فرزانہ نہیں پھر بھی اس کے ہاتھوں میں ذاکر مجید کی وہ تصویر ایسے ہی ہے جیسے پہلے تھی
فر زانہ بلوچستان کی سسئی ہے
فرزانہ بلوچستان کی ماروی ہے
تو پھر کیا بدلا ہے
میں تو کہتا ہوں کہ کچھ بھی نہیں بدلا
حتا کہ بلوچستان پر طلوع ہونے والا
سورج نہیں بدلا
برستی بارش نہیں بدلی
ہوائیں نہیں بدلیں
درد نہیں بدلے
دکھ نہیں بدلے
مائیں نہیں بدلیں
ماؤں کے ماتم اور گیلے نہیں بدلے
جب طلوع ہوتے سورج میں اندھیرے نہیں بدلے
تو میرے دیس میں کچھ نہیں بدلا
تو کاش فرزانہ کے جنم پر اس ماں کو کوئی ضرور کہتا کہ اس کا نام فرزانہ نہ رکھو اس کی دکھوں بھری جو تی شاہ کے تمر سے بھی نہیں اُٹھائی جائیگی اور فرزانہ اپنے دردوں اور دکھوں سے اداس نین لیے سراپا انتظار ہی رہے گی
آج تم اسے یاد کرو
جس کے قدم بلوچستان کی دھرتی پر موجود ہیں
آج تم اس یاد کرو جو جہاں پر بھی ہے اس کی جوتیاں دھرتی بلوچستا ن کی دھول سے دھول آلود ہیں
آج تم اسے یاد کرو جو اپنے بھائی مور کے اُٹھائے جانے پر مورنی کی طرح روئی تھی
آج تم اسے یاد کرو
جس کے نہ در د کم ہوسکے
نہ دکھ
جو بلوچستان کی ماروی ہے
جو دھرتی کی سسئی ہے
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔