سندھ کے دارالحکومت کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4241 دن مکمل ہوگئے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماوں اور کارکنان نے شرکت کی۔
اس موقع پر ماما قدیر کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں آج بھی لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اجتماعی سزا کے طور پر سیاسی کارکنوں اور رہنماوں کے گھروں پر چھاپوں سمیت ان کے رشتہ داروں کو لاپتہ کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران خضدار اور جھاوں سے پندرہ افراد کو لاپتہ کرنے سمیت پسنی کے وارڈ 6 میں پاکستانی فوج نے چھاپے میں لوگوں کو زد و کوب کیا۔
انہوں نے کہا کہ آج خضدار کے علاقے باغبانہ سے بی این ایم کے مرکزی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر خدا بخش بلوچ کے دو بیٹوں عبدالوحید اور نثار احمد کو پاکستانی فوج نے جبری طور پر لاپتہ کیا جبکہ جھاو سے دوران آپریشن 13 لوگوں کو جبری گمشدگی کا شکار بناکر فوجی زندانوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان میں جمل ولد قادربخش، فیض محمد ولد قادربخش، علی بخش ولد قادربخش، غوث بخش ولد مراد، رمضان ولد مراد، ارشد ولد مراد، ثناء اللہ ولدمحمدحسین، منظور ولدمحمدحسین، یارمحمد ولد محمدنور، محمد عارف ولداللہ بخش، عبدالواحد ولد رسول بخش، چھٹہ ولد الہ یار، رسول بخش ولد نورا شامل ہیں۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں آگ و خون کے منظر کو گہرا بنانے والی ریاستی طاقت آئے روز نت نئے انسانی المیوں اور جبر و استبداد کے بہیمانہ مظاہر سامنے لارہی ہے۔ وہ تمام علاقے جہاں بلوچ قومی پرامن جدوجہد کی گہری اور وسیع سماجی بنیادیں ہیں مقتدرہ ریاستی قوتوں کی بلوچستان بھر میں مسلح جارحانہ کاروائیوں اور مختلف سازشوں کا سب سے زیادہ نشانہ بنائے جارہے ہیں۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ حکمرانی زمینی حقائق کو ذہنی اختراع قرار دیکر بلوچستان میں جاری فورسز کے آپریشن سے مکمل انکاری ہیں لیکن فوجی کاروائیوں سے انکار کے دعووں کی ایک اور نفی مذکورہ واقعات کررہے ہیں۔