ایک جرگہ اور ہو – عزیز جمالدینی

346

ایک جرگہ اور ہو

تحریر: عزیز جمالدینی

دی بلوچستان پوسٹ

برج عزیز خان ڈیم کے تعمیر کے خلاف جرگہ اور منظم احتجاج منعقد کرنے والے یقیناً داد تحسین کے لائق ہیں۔ آپ سب کا منظم اور یکجا ہونا یہاں کے عوام کی دیرینہ خواہش رہی ہے۔

ہم سب کا ایک ہونا اسلیئے بھی ضروری ہے کہ ہماری روایات، شادی،ٖ غم اور رشتہ داریاں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہماری دعاہے کہ یہ یکجہتی تاابد قائم رہے۔

اس بابت جرگے کے معتبرین اور آل پارٹیز کے نمائندوں سے سوال کرنا شاید بے ادبی کے زمرے میں آئے لیکن کیا کریں بے چینی تب بڑھتی جارہی تھی جب جرگے کی ایک میٹنگ کے بعددوسری میٹنگ کا منعقد ہونا طے ہوا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی معتبرین نوشکی کے عوامی مسائل اور زمینداروں کے لئے ہمیشہ سے کچھ کرنا چاہ رہے تھے لیکن انہیں اس طرح کا پلیٹ فارم شاید میسر نہیں تھا۔ یہ کریڈٹ بھی سرکار کو جاتا ہے کہ اس نے ہمیں یکجاہ بٹھادیا۔

ویسے بھی سرکاری کارنامے ہمیشہ سے عوامی مفادات کیلئے ہی ہوتے ہیں لیکن یہاں سرکار نے وہ کردکھایا جس کی نوشکی کے بے سروپا عوام منتظرتھے۔

انہیں ایک منظم یعنی قبائلی اور سیاسی آواز ایک ساتھ ملی۔
خیر دیر آید درست آید ۔

جرگے کے معتبرین سے ہمیں امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ انکی اس یکجہتی سے سرکار مجبور ہو کر اس فیصلے کو پس پشت ڈال دیگی۔
یہ بڑی خوشی کی بات ہوگی کہ ہماری یکجہتی کسی ریاستی فیصلے کو رد کرسکے یعنی سرکار مجبور ہو کر برج عزیز خان ڈیم کے فیصلے کو واپس لے۔

ہم اس یکجہتی کو بڑھا سکتے ہیں اگر مقصد صرف بُرج عزیزخان ڈیم نہ ہو بلکہ نوشکی کے دیگر معاملات کو بھی ہم جرگے کے پلیٹ فارم سے ٹھیک کراسکتے ہیں۔

یہ جرگہ فعال ہے اور اس کا فعال ہونا بے حد ضروری ہے۔ نوشکی میں آباد تمام قبائل کو آنے والے دنوں میں اس جرگے کا حصہ بنایاجائے۔

برج عزیز خان ڈیم بن گیا تو نوشکی میں آباد قبائیلیوں کی زمینیں بنجر ہوجائینگی، جوکہ ہمیشہ سے بارانی پانی کے ہی آسرے پہ ہیں۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور حقیقت بھی، جس سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا۔

لیکن اس کے برعکس ہمارے گھر آئے روز سنسان ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے گلی محلے ویران اور امن وامان بنجر ہوتا جارہا ہے۔ہماری رسومات و روایات آئے دن زبوں حالی کی طرف جارہے ہیں۔

کہنے کی حد تک نوشکی خیرخواہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اتنے زیادہ ہیں کہ شمار کرنا مشکل ہے۔ لیکن خیر کرنے میں انہیں پتا نہیں کیا ہوجاتا ہے۔ خیر نہ کرنے والے خیرخواہوں کی مثال ویسی ہی ہے جیسا حج نہ کرنے والا حاجی ۔ ہمارے ہاں بجلی کا مسئلہ ہمیشہ سے چلا آرہا ہے بجلی اگر2 دن نہیں ملیگی زمینداروں کی آباد زمینیں بنجر ہوجائینگی۔ یہ ایک حقیقت ہےکیا ہمارا حق نہیں بنتا کہ ہم اس بابت کوئی اوپن جرگہ بلائیں جہاں نوشکی میں آباد تمام قبائل اس میں شامل ہوں۔

جرگہ جس منظم انداز میں فعال ہے ڈیم کے خلاف کمپین چلایا جارہا ہے، جلسے جلوس کرکے عوام کو آگاہی دی جارہی ہے کہ ڈیم بننےکے یہ یہ نقصانات ہیں، ہڑتالیں کی جارہی ہیں، ڈیم بننے کے خلاف اور ڈیم بنے گا بھی نہیں۔ کامیابی یہاں کے عوام کا مقدر ہوگی ان شاء اللہ۔

جرگے کے معتبرین کے ذہن میں ضرور باقی معاملات بھی ہونگے ہمیں اس سے انکار نہیں ، باقی چھوٹے موٹے معاملات بھی جرگے میں ڈسکس ہوئے ہونگے لیکن پہلی فرصت میں جن معاملات پہ گفتگو کرنا تھا وہ نہیں ہوئے۔ کیوں نہیں ہوئے؟ کسی نے کرنے نہیں دی یا ہمارے مفادات ان سے جڑے ہوئے نہیں ہیں۔

عوام کی ایک خواہش ہے کہ جلد از جلد نوشکی کے خونریز قبائلی جھگڑوں پر بہت جلد جرگہ بلایا جائے یقین جانیے یہ برادر کش جھگڑے ہم نے ہی حل کرانے ہیں باہر سے کوئی فرشتہ نہیں آئے گا۔ اگر ہمارے ارادے پختہ ہوں تو ان جھگڑوں کا تصفیہ ہو سکتا ہے۔
بہت جلد ہوسکتاہے۔

وہ اس لئے کہ اس جرگے کے سرخیلوں میں وہ معتبرین شامل ہیں جن کی عزت پورا بلوچستان کرتی ہے۔ سردار آصف شیر جمالدینی صاحب، سردار محمداسحاق مینگل صاحب، میر افضل خان مینگل صاحب، میر شبیراحمد بادینی صاحب، میر محمداعظم ماندائی صاحب سمیت آل پارٹیز کے ذمہ داران۔یہ تمام وہ معتبرین ہے جنکا بلوچستان کے قبائلیت اور سیاست پر بڑا اثرورسوخ ہے۔ ان کی بڑی عزت بھی ہے پورا نوشکی ان تمام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ بس ایک کوشش اگر صدق دل سے کی جائے، ایک جرگہ قبائلی جھگڑوں پر ضرور ہونا چاہیے۔

پہلی کوشش ان جھگڑوں میں خیر کراسکتی ہے۔
اگر یہی برادر اقوام برادر کش جنگوں میں گھری رہی تو پھر ڈاک کا بنجر یا آباد ہونا بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔
خدارا گھروں کو بنجر ہونے سے بچائیے۔
نوجوان نسل کو بنجر نہ ہونے دیں۔
کیا آپ لوگوں کو احساس ہے؟ اگر نہیں ہے ان گھروں میں جاکر دیکھئے کہ گھروں کابنجر ہونا کیسا خطرناک ہے۔

اگر یہی جرگہ معتبرین اور آل پارٹیز برج عزیز خان ڈیم کےلئے ایک جان ہوسکتا ہے تو قبائلی جھگڑوں کے معاملات پہ کیوں نہیں۔
یہاں ان کا ایک ہونا ایسا ضروری ہے جیسا ڈاک کیلئے بور نالے کا وجود ہے۔

دیر نہیں کرنی اگر مزید اس بابت مہینے لگ گئے تو دلوں میں خدشات پیدا ہونگے کہ زمینوں سے قبائیلیوں کے مفادات وابسطہ ہیں۔
سردار آصف شیر جمالدینی صاحب آپ سے امید زیادہ ہے کہ آپ جرگے کے سربراہ ہے، جرگے کو منعقد کرنے کی پہلی کوشش آپ سے ہی ہوئی تھی اوراچھی کوشش تھی جوکامیاب بھی ہوئی۔
پھر رفتہ رفتہ جمالدینی ہاوس، بادینی ہاوس اور پھر مینگل ہاوس میں وقتاََ فوقتاََ میٹنگز کا ہونا اچھی پیشرفت تھی۔

جیسا کہ آپ معتبرین نے نوشکی کے عوام کو ڈیم کے خلاف احتجاج اور ہڑتالوں پر بلالیا اور یہ عوام آپ کی آواز پر لبیک کہہ کر شانہ بشانہ آپ کے ساتھ ہے۔

لہذا اب یہ خواہش بھی عوام کی ہے کہ یہاں کے سکون کو بحال کی جائے وہ برادرانہ ماحول واپس استوار کیا جائے جو چند سال پہلے تھی۔ یہ جنگیں صلح ہوسکتی ہیں۔ شرط پختہ ارادہ کی ہے گیند اب جرگہ معتبرین کی کورٹ میں ہے۔ اسے احسان سمجھ کر،رحم کی اپیل سمجھ کر،ماں باپ، بہنوں، بیٹیوں اور بھائیوں کی فریاد سمجھ کر پہل کی کوشش کریں۔ عوام کا اعتماد اور دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔

گارباں توپان باں بیگواہ باں بلے سید
اے شگاناں جت مکنت کسے کہ پشت ءَ کنزتگ


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔