‏‏سنائپر شوٹر سکندر -تحریر شے رحمت بلوچ

488

  ‏سنائپر شوٹر سکندر

 شئے رحمت بلوچ

انقلاب میں اکثر یہی ہوتا ہے کہ قصے بدل جاتے ہیں ، انقلاب قصوں کو بدل ہی دیتا ہے ، انقلاب لانے میں قصوں کو بدلنا ہی پڑتا ہے ، انقلاب میں قصے ایسے بدل جاتے ہیں جیسے رات کی تاریکیوں سے سورج کی روشنی تک ، اسی طرح انقلاب ہماری قصے بدل دیتا ہے، انقلاب لانے سے بھلا لوگ ڈرتے کیوں ہے ؟ یہی سوال اکثر آتا ہے کہ لوگ انقلاب لانے سے ڈرتے کیوں ہے ؟ لوگ اسی لئے ڈرتے ہیں کہ جہاں بھی انقلاب لانا ہو ، وہاں کے حکمران کبھی بھی انقلاب کو پسند نہیں کرتے ، اسی لئے پسند نہیں کرتے کیونکہ اُن کو جاری ماحول اور مزاج پسند ہوتا ہے۔ اور جو انقلاب لانا چاہتے ہوں ، ان لوگوں کو ماردیا جاتا ہے ، اسی لیے کچھ لوگ انقلاب لانا ضرور چاہتے ہیں لیکن قربانی سے ڈرتے ہیں ۔

شہید سکندر ، لالا ابراہیم کے گھر میہی میں پیدا ہوئے ، جیسا کہ میں میہی کے بارے اپنے پھچلے آرٹیکلوں میں لکھ چکا ہوں کہ وہاں اسکول نہ ہونے کی وجہ سے ، بچوں کو جیبری تک سفر کرنا پڑتا ہے ، در اصل میہی میں اسکول نہ ہونے کہ وجہ سے ، میہی کا ہر بچہ اپنے اسکول کےلئے جیبری تک سفر کرتا ہے ، کیونکہ تعلیم ایک بنیادی حق ہے ، جس سے ہم محروم ہیں ، ہم کو تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے کیونکہ اگر ہم نے تعلیم حاصل کی تو ہم حق خوددرادیت کی بات کرینگے ، اپنا حق مانگیں گے ، اسی لئےریاست کبھی بھی تعیلم دینے کی کوشش نہیں کرےگا ۔

شہید سکندر اسکے بعد اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کےلیے کراچی گئے ، کراچی کے بعد کچھ وقت تک کوئٹہ میں رہے ، لیکن 2015 میں اپنے چھٹیوں کے سلسلے میں مشکے واپس آگئے ، اسی دن وہ آگئے ، اس کے اگلے دن ، مشکے میہی میں ، آرمی اور سرمچاروں کے درمیان جنگ ہوا ، جس میں 13 بلوچ سرمچار شہید ہوئے ، اور آرمی کے کئی اہلکار جانبحق ہوئے ، اس واقعے کے بعد حالت حق میں نہیں رہے ، ہر جگہ آپریشن ، ہر جگہ پاکستانی فوج نے گھر جلائے ، لوگوں کو اغواء کیا گیا، زبردستی نقل مکانی کروایا گیا، جس کے اثرات مشکے کے عوام پر بہت ناگزیر گذرے ۔

اس وقت ایک ایسا عالم تھا کہ ہرکسی کو فوجی کے ظلم کا شکار بنایا جاتا تھا، فوج اپنی دہشت پھیلانے میں لگا ہوا تھا، ہر جگہ معصوم لوگوں کو شہید کرنا، گھر جلانا ، لوگوں کو زبردستی اپنے کیمپوں کے قریب لاکر ، پابند کرنا ، اسی ہی دوران لالا ابراہیم شہید کے والد بھی گجر کی طرف چلے گئے ، حالانکہ شہید سکندر کو یہ چیز ہرگز پسند نہیں تھا ، لیکن نا چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ ایسا ہوا ، اسی دوران سکندر کے ماموں ، دولت ، مہراللہ ، اس کے خاندان میں بہت سے لوگ خوف کا شکار ہوکر ، پاکستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ، کچھ دن گزرنے کے بعد دولت بی ایل ایف کے ہاتھوں مارا گیا ۔

اسکے بعد 2016 میں وہ اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ، گجر اسکول میں داخل ہوگئے ، اسی دوران بی ایس او آزاد کی طرف سے اس نے چاکنگ کئے ، جس کا فوج کو پتہ چل گیا ، اور سکندر کو مشکے (مین کیمپ) چاونی لے کر گئے ، اور وہاں ان کو اُلٹا لٹکا کر ، مارا گیا ، ہر طرح کی ازیت دی گئی ، لیکن اس کے باوجود جب وہ باہر آگئے وہ اپنا کام جاری رکھے رہے ، میہی اور جیبری میں بھی چاکنگ کیا، اور ایک بار گجر بازار میں بھی چاکنگ ہوئی ، اس کے بعد اس کو جیبری آرمی میں جیل کیا گیا ، اور اس کو آخری وارننگ دیا گیا کہ اب اگر چاکنگ کیا تو مارے جاؤگے ۔

اس کے بعد جب وہ باہر آگئے تو بی ایل ایف (بلوچستان لبریشن فرنٹ ) کے ساتھیوں کے ساتھ حال احوال کرنا شروع کیا ، ان کو ہر طرح کی معلومات دیتے رہے ، ان کے لئے کام کرنا شروع کیا ، اور کئی بار ، ان سے ملنے بھی گئے ، اسی دوران فوج کو پتہ چل گیا کہ یہ اپنے حرکتوں سے پیچھے نہیں ہٹنے والے ، تو فوج نے اپنے لوگوں کو اطلاع دیا کہ اس کو گرفتار کرنا ہے ، تو وہاں سے نکل کر سیدھا بی ایل ایف کے ساتھیوں سے حال احوال کرکے انکے پاس گئے ، اور واپس گجر جانے سے انکار کیا ، بی ایل ایف کے ساتھیوں نے ان کو منع کیا کہ ابھی تک آپ کے لئے وہاں بہت کام ہے لیکن وہ نہیں گئے کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ اب پکڑا گیا تو عاقبت تک دوسرے بلوچوں کی طرح (مسنگ ) رہونگا ۔

وہ بی ایل ایف میں چار سال مسلح رہے ، قومی خدمت سرانجام دیتے رہے ، بقول انکے ساتھیوں کے ، وہ انتہائی دلیر ، مخلص ، بہادر تھے ، جب بھی کسی محاذ پر فوج کا سامنا کرنا ہوتا ، وہ سب سے پہلے تیار رہتے اور انتہائی خوش رہتے کہ مجھے جنگ کا موقع مل رہا ہے ، وہ کئی کاروائی میں شامل تھے ، بدقمستی سے 2020 September 18 کو جب پانچ ساتھیوں کے ساتھ فوج پر حملے کےلیے جارہے تھے ، ان کے رستے پر پہلے سے فوج تھا ، وہ وہاں سے نکل کر تھوڑی دور گئے دوسرے دن 9 بجے فوج نے ان پر اپنا گھیرا لگایا اور جنگ شروع ہوگئی ، وہ بہادری سے لڑتے ہوئے دشمن کو نقصان پہنچاتے ہوئے 4 ساتھی سمیت شہید ہوگئے ۔


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں