آخری دیدار کے پُر کَشش مناظر
تحریر: سلال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کچھ دنوں سے حالات پُر کَٹھن موڑ اختیار کر چُکے ہیں، جہاں دشمن اپنا زور لگائے ہوئے ہر طرف پہرہ دے رہا ہے، کچھ بے چینی سی محسوس ہورہی ہے، سنگر کے حالات بھی بدل چُکے ہیں کسی چھوڑ جانے والے کی شدت سے یاد دل کو نچوڑ رہی ہے – جہاں حوصلوں کی ضرورت ہے، جہاں حوصلے دینے والے کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی ہے-
لیکن بچھڑنے والے نے دل پہ یادوں کا انبار چھوڑ دیا ہے، اب اِنہی یادوں کے سہارے حوصلے بلند ہوتے ہیں کہ میرا استاد میرا لیڈر شہید دلجان اِنہی پُر کَٹھن حالات سے گزر کر ثابت قدم رہا- کیوں نہ دلجان کی وہ باتیں پھر سے یاد کرکے حوصلوں کی چوٹیوں کو چُھوا جائے جس نے دشمن کے ہر پہرے اور گھیرے کو اپنے قومی جذبوں سے توڑ کر پار ہوگیا- جہاں اپنی میٹھی نیندیں کھو بیٹھا، لیکن دشمن کے لیے بولان کی طرح ایک مضبوط سنگر بن کر ثابت ہوا-
محاذ کی وہ پُر کَٹھن اور لذت سے بھری کہانیاں جو میں شہید دلجان کے خُشک اور میٹھے ہونٹوں سے سن چُکا تھا، آج اُنہی کہانیوں کی حقیقت میں دلجان کی یادوں کو لے وقت گزار رہا ہوں – لیکن صبح کی چُبھتی ہوئی سرد ہواؤں کے دوران جب گھاٹ پہ جانا ہوتا ہے تو وہاں دلجان کی وہ باتیں بہت شدت سے یاد آتی ہیں جو وہ کہتا تھا کہ شہید حق نواز، شہید امیر الملک ، شہید حئی ،شہید شیرا، اور بہت سے شہداء سنگتوں کے بچھڑنے کی وجہ سے مجھ سے میری نیندیں روٹھ گئیں تھیں – ایسا نہیں کہ میں کمزور پڑ گیا تھا، بلکہ وہ یادوں کو لیکر سنگر میں مجھ پر ایک عجیب سی بے چینی طاری ہوتی تھی کہ میں کہیں بازی ہار نہ جاؤں ، کہیں شہداء سنگتوں سے پیچھے نہ رہ جاؤں- لیکن شہداء کے کردار نے مجھے ہر موڑ پہ حوصلہ بخشا ہے، ہاں یہ بات حقیقت ہے کہ میری نیندیں مجھ سے کہیں دُور سفر کر رہی تھی اور میں جاگ جاگ کر شہداء کے مشن کو آگے لے جانے کے منصوبے بناتا تھا- سوچتا تھا کہ کس طرح سنگتوں سے کیئے ہوئے وعدوں کو پورا کرکے دشمن پر کاری ضرب لگانے میں کامیاب ہو جاؤں –
واقعی شہید دلجان نے اپنی زندگی اس قومی جزبہ کے لیے قربان ضرور کی، لیکن اپنی زندگی کے دوران بھی اپنی نیندیں بھی اس قوم و وطن کے حفاظت کے لیے قابض بھیڑیا نُما دشمن پر گوریلا طرزِ عمل سے وار کرنے اور اس جو نیست و نابود کرنے کے منصوبے بنانے اور ان کو حقیقی و عملی جامہ پہنانے میں صَرف کی-
آج جب ہر طرف دشمن کے گھیراؤ میں بند سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ جب میں گھاٹ(پہرہ) پر جاتا ہوں تو میرے لیے شہید دلجان کی وہ باتیں حوصلوں کا سبب بنتی ہیں، جنہوں نے ثابت کر دکھایا کہ یہ ریاست صرف اُنہی پر قابض ہو سکتی ہے جنہوں نے خوشی سے اس غلامی کو قبول کیا ہوا ہے، نہ کہ ایسے افراد پر یہ ناجائز ریاست قابض ہوسکتی ہے جن کی سوچ آزاد ہو، جو آزادی کی کُھلی فضا میں سانس لینے کا ہُنر رکھتا ہو – وہی لوگ پھر یہ پُر کٹھن راستہ اختیار کرکے دشمن ریاست کے خلاف ہر محاز پر بر سرِ پیکار نظر آتے ہیں اور اپنی بقاء و شناخت کو بچانے کے لیے جان دے کر تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں –
تاریخ میں امر ہونے والے ایسے ہی دو سرمچاروں کی آخری دیدار کے اُن حسین لمحوں کو آج میں اپنی ناقص علم کے ذریعے قلم بند کرنا چاہتا ہوں، جن لمحات کو میں اپنا میراث و جائیداد سمجھتا ہوں، وہ آخری لمحے جو میں نے ذہن نشین کرلی ہیں، آج بھی جب حالات پُر کٹھن ہوتے ہیں میں اُنہی آخری لمحات کو دل میں سموئے سکون سے اُن حالات سے لڑنے کی ہمت کرتا ہوں، کیونکہ یہی درس مجھے میرے اُستاد شہید دلجان نے ہر لیکچر میں دیا تھا اور وہ خود ثابت قدم ہوکر آج بھی ہر سنگر میں ہر محاذ پر مجھے ہر دوست کے چہرے میں شہید دلجان نظر آتا ہے، اور میرے حوصلے کوہِ شاہموز کی طرح مزید بلند ہوتے ہیں کہ میں بہت خوش نصیب ہوں کہ ایسے شخص کی قربت میرے انقلابی تربیت کے دن گزرے جس کے کردار پر ہر زرہ زرہ رشک کرتا ہے، اُن کے کردار کے سامنے ہر پہاڑ اپنی اونچائی بُھلا کر سر جُھکائے گزان کی سر زمین (جہاں دلجان دفن ہے) کو جُھک کر سلام پیش کرتی ہیں-
زندگی میں بہت سے ہمدرد و اپنے بچھڑ کر چلے گئے لیکن شہید دلجان کا اچانک بچھڑ جانے سے مجھے اُسی دن محسوس ہوا کہ کوئی اپنا ہی آج بچھڑ گیا ہے-
19 فروری 2018 کا دن تھا، دن کے تین بجے شہید دلجان کا میسج آیا کہ سنگت کیا آپ فارغ ہیں تو ہم کال پر بات کر سکتے ہیں؟ میں جو ان کی ایک آواز سننے کو ہر وقت ترستا رہا تھا، میں نے جواب نہ دیتے ہوئے دلجان کو کال کردیا، کچھ تنظیمی کام ڈسکس کرنے کے لیے تقریباً بیس منٹ بات ہوا، اور پھر اگلے روز ملنے کے لیے مدعو کرکے “رخصت اف اوارون سنگت” کے الفاظ کے ساتھ خدا حافظ کہہ کر کال کاٹ دیا- مجھے علم نہیں تھا کہ آج شہید امیر الملک کے وہ آخری الفاظ ( رخصت اف اوارون سنگت) اور امیر جان کے آخری گولی کا فلسفہ زہری کی سرزمین پر آج پھر دہرایا جائے گا- سنگت سے بات کرنے کے بعد میں کچھ ضروری کام کے تحت تین گھنٹے تک وہاں مصروف رہا، جب فراغت ہوئی موبائل سنبھالنے کے بعد میں نے ایک دوست کے میسجز دیکھے جس میں وہ کہہ رہا تھا کہ شہید دلجان پر حملہ ہوا ہے اور وہ دیگر ایک دوست کے ساتھ وہاں دشمن کے ساتھ جنگ جاری رکھا ہوا ہے- تنظیمی راز داری کی بنیاد پر شہر میں کسی بھی سنگت کو شہید دلجان کے رہنے کی جگہ کا علم نہیں تھا، کہ کوئی اُن کی مدد کے لیے وہاں پہنچ سکے – بد قسمتی سے ہم وہیں کے وہیں رہ گئے اور شہید دلجان و بارگ جان نے تین گھنٹے جنگ جاری رکھنے کے بعد گولیاں ختم ہونے کی صورت میں شہید امیر الملک کے آخری گولی کے فلسفے کو برقرار رکھتے ہوئے دونوں دوستوں نے اپنی حَلق میں آخری گولی پیوست کیں –
دشمن کو منہ کی کھانی پڑی، شکست سے دوچار بوکھلاہٹ کا شکار دشمن جب یہ منظر دیکھ رہا ہوگا تو ضرور اپنی قبضہ گیریت پہ شرمسار ضرور ہوگا، کہ یہ وطن بلوچستان کے بہادر سَپوت اپنے جسم میں بھی دشمن کی گولی کو برداشت نہیں کرتے، کہ دشمن کی پَلید گولی اُن کے جسم کو چُھو سکے- دلجان و بارگ جان ثابت قدم ہوگئے اور وہ جیت گئے، دشمن و دشمن کے کُمک کار آج بھی ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن دلجان نے اپنے فکر و کردار سے ایسے سنگت جنم دیے ہیں کہ اب ایسے دشمنوں کی نیندیں حرام ہوچُکی ہیں، وہ دن دُور نہیں کہ یہ دشمن شہید دلجان کے کسی شاگرد سرمچار کی گولیوں کا نشانہ بَن جائیں گے اور تاریخ میں غدار کا نام لیے اس دنیا سے مٹ جائیں گے-
جنگ کے طویل تین گھنٹے بعد جب فورسز نے شہید دلجان و بارگ جان کی میتوں کو ہسپتال پہنچایا تو مجھ سے رَہا نہیں گیا، دیگر دو دوستوں کے ہمراہ میں ہسپتال پہنچا جہاں دو کردار دشمن کو شکست دے کر جیسے پُر سکون نیند سو رہے ہوں – دلجان شاید یہی سوچ کر زندگی میں سونے کے اوقات میں جاگ جاگ کر دشمن کو شکست دینے کے منصوبے بناتا کہ سونے کے لیے تو وقت بہت ہے، یہ نیندیں وطن کی آغوش میں پُر سکون طریقے سے پورا کیے جاسکتے ہیں، کیونکہ لذت کی نیند تو وہی ہوتی ہے جب انسان سُرخرو ہوکر وطن سے بغل گیر ہو، اور ہمیشہ کے لیے ایک اعزاز پاکر سو جائے –
دلجان نے اپنی زندگی میں بھی دشمن کو شکست سے دوچار کیا اور اپنے موت کے وقت بھی دشمن کو شکست دلاکر ٹِک تیر و کمانڈر جھالاوان کا اعزاز پاکر پورے بلوچ قوم خصوصاً اپنے سنگتوں کا سَر فخر سے بلند کردیا –
آخری دیدار کا وہ پُر کشش منظر میں کبھی بُھول نہیں سکتا جب میں ہسپتال کے کمرے میں داخل ہوا تو مِسک و عُود کی خوشبو محسوس ہونے لگی، مجھے یقین ہو گیا کہ یہاں صرف میرے استاد شہید دلجان اور اُس کا و ہمارا شہید دوست (بارگ جان) ہی ہوسکتے ہیں-
جب بارگ جان کے چہرے سے سفید کپڑا ہَٹاکر دیکھا، کہ ایک بُلند و بالا کردار کے مالک اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اپنی جیت پر مُسکرا رہا ہے، دل کرتا تھا ایک بار لپٹ کر خُوب رو لوں کہ کچھ دل کو سُکون محسوس ہو، لیکن آخری گولی کے فلسفے کو پھر سے زندہ کرنے والے بارگ جان کی پُر کَشش چہرے نے مجھے رونے سے روک دیا کہ اب اسی فلسفے کی پیروی کرکے دشمن کو ہر محاذ پر بارگ کی شکل میں ملنا تاکہ دشمن کو اندازہ ہو کہ بارگ ابھی بھی زندہ ہے- البتہ بارگ جان کو میں پہچان نہیں سکا ، کیونکہ میں کبھی اُن سے مِلا نہیں تھا اور نہ ہی کچھ اُن کے حوالے سے سُنا تھا-
لیکن جب میں نے سفید کپڑا دلجان کے چہرے سے ہَٹاکر دیکھا تو مجھے رشک آگیا کہ آج میرا استاد وطن کو گلے لگاکر بہت سکون سے سو رہا ہے- گَھنے سیاہ بال بھکرے ہوئے تھے جیسے اُن سے کوئی آندھی ٹکرا گئی ہو- خُشک ہونٹوں سے لگ رہا تھا کہ دشمن کو تھکا کر شکست دیا ہے، خوبصورت سُفید دانتوں سے ہنسی و مسکراہٹ جھلک رہی تھی- حَلق سے گزر کر سر سے نکلی ہوئی گولی بھی کتنی خوش نصیب ہوگی کہ دلجان نے اُس گولی کو آخری وقت میں اپنے لیے چُنا تھا-
کسی اپنے کے بچھڑ جانے کا درد لیے ہوئے سنگت دلجان و بارگ جان کہ قدموں کو چُھوتے ہوئے اُنہیں رخصت کرلیا اور وہاں سے نکل گیا-
جب بھی تھک جاتا ہوں، یا حوصلے لرزتے ہیں تو شہید دلجان و بارگ جان کی آخری دیدار کے وہ لمحے بڑی شدت سے دل پہ وار کرتی ہیں اور پھر حوصلوں کے بلندیوں کی انتہا نہیں رہتی- جنہوں نے اس قوم و وطن کے لئے اپنا تَن، مَن، دَھن قربان کردیا میں اُنہی کی تربیت میں وقت گزار چُکا ہوں تو میرے حوصلے کیسے کمزور پَڑ سکتے ہیں –
بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں