کوفہ امام کے سفر کی مجبو ری کی منزل تھا – محمد خان داؤد

204

کوفہ امام کے سفر کی مجبو ری کی منزل تھا

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کینڈا اس کی منزل نہ تھی۔ جب وہ آخری رات تمپ میں اپنے گھر میں تھی تو وہ پو ری رات اپنی ڈائری میں بلوچی شاعری اور آنکھوں سے اشک بہا تی رہی۔ وہ اپنی ماں سے شاعری میں مخاطب تھی۔ ماں بھی اس سے شاعری میں ہی مخاطب تھی۔ وہ بھی دکھی تھی۔ ماں بھی دکھی تھی۔اس کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے،ماں کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ وہ ماں کو اپنے گلے سے لگا تی، ماں اسے اپنے گلے سے لگا تی۔ وہ ماں کو کہتی میں اب بہت دور جا رہی ہوں، ماں اسے کہتی تو مجھ سے کبھی دور نہیں ہو سکتی۔وہ ماں کی باتوں سے اشک بار ہو جا تی،اس کی باتوں سے ماں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر جا تیں۔کون کس سے دور تھا؟کون کس سے قریب تھا؟کیا خبر تھی کون کہاں رہ جائیگا اور کون کہاں چلا جائیگا؟
پر کینڈا اس کی منزل نہ تھی!
وہ کینڈا میں رُکنے کو نہیں جا رہی تھی، کینڈا تو اس کے سفر کی مجبوری کی منزل تھی!
ایسے ہی جیسے”کوفہ امام کے سفر کی مجبو ری کی منزل تھا“
کریمہ کا سفر تو آزاد دیس کی آزاد گلیوں کا تھا
کینڈا تو ایک پڑاؤ تھا!ایک ٹھہراؤ تھا

کینڈا کریمہ کی منزل نہ تھی۔وہ تو منزل کی مجبو ری کا سفر تھا۔جو اسے وہاں لے گیا جہاں اسے جانا بھی نہ تھا اسے تو اپنی دھرتی پہ رہنا تھا۔اس تو اپنی دھرتی پہ رہ کر دھرتی کی بات دھرتی کی زباں میں کرنی تھی۔اگر ایسا نہ تھا تو آج لکھنے والے کیوں ایسا لکھ رہے ہیں کہ جاتے وقت اگر کریمہ کی ماں جمیلہ کچھ ایسے اشعار پڑھتی تو کریمہ رُک جا تی۔پر اس بہادر بیٹی کی بہادر ماں جانتی تھی کہ کریمہ کی منزل آگے ہے بہت آگے اگر یہ یہاں رُک گئی تو اِس تتلی کے پر جل جائیں گے جن پروں سے یہ تتلی اُڑنا چاہتی ہے۔اگر یہ یہاں رُک گئی تو یہ زباں سل جائیگی جس سے یہ اپنے باتوں میں بہت کچھ کہہ جا تی ہے۔ اگر یہ یہاں رُک کئی تو اس کے یہ پیر کبھی آگے نہ بڑھ پائیں گے جن پیروں جو آزاد دھرتی کے آزادآدرشوں کی تلاش ہے اس لیے کریمہ کو جا تے میں ماں نے بالکل نہیں روکا۔

لکھنے والے تو لکھ رہے ہیں کہ وہ چاہتی تو ماں اسے روک سکتی تھی
پر نہ تو ماں نہ روکا اور نہ کریمہ رُکی
کچھ باتیں ہوئیں
کچھ آنسو بہے
بیٹی نے ماں کو گلے سے لگایا
ماں نے آگے بڑھ کر بیٹی کے ماتھے کو چومہ
اور کریمہ وہاں چلی گئی جہاں اسے جانا نہیں تھا
پر وہ بھی کیا کرتی جب دیس کی گلیوں میں بارود بھر دیا جائے۔جب دیس کے دامنوں میں پھول نہ کھلیں پر لاشیں لادی جائیں۔ جب دیس میں تتلیوں،خوشبو،اور پھولوں پر بندش ہو، جب بس پھول جب درکار ہوں جب کوئی مسخ لاش لائی جائے اور اس لاشے پر وداعی پھول ڈالے جائیں۔
جب دیس کی سب گلیوں کو بارود کی بوُ سی بھر دیا جائے۔ جب مائیں اپنے جوان بیٹوں کو دیکھ کر خدا سے یہ شکایت کناں ہوں کہ مولا نے انہیں بیٹے کیوں دیے؟ اگر دیے بھی تو اتنی جلدی جوان کیوں ہوگئے اور جوان بھی ہوگئے تو ان گلیوں میں کیوں رُلتے ہیں جن گلیوں میں بارود کی بوُ ہے اور بارود کی بوُ کو ان گلیوں میں بسانے والے بھی اپنے ہیں تو اس وقت مائیں خدا کو بہت یاد کرتی ہیں!

کریمہ کو اپنا دیس بہت پیارا تھا پر کریمہ دیس کی ان گلیوں میں کیسے رہ پا تی جن گلیوں میں خوشبو پر بندش!آواز پر بندش!تتلیوں پر بندش!گیتوں پر بندش!خوابوں پر بندش!اور”
”یہ دیس میرا ہے
اس دیس کی گلیاں میری ہیں“
کہ جیسے سہانے سپنوں پر بندش
تو کریمہ اس دیس اور ایسے دیس کی گلیوں میں کیوں کررہ سکتی ہے
پر پھر بھی وہ بارود کی بوُ میں صبح ہونے تک رہتی رہی۔
پر جب دیس کی تمام گلیوں کو بارود کی بوُ اور خوف سے بھر دیا گیا
تو ایسے میں اس دیس کے کچے مکانوں میں وہ کیسے ٹھہر سکتی تھی
جو ایک سپنا تھی
جو اک تتلی تھی
جو ایک مورنی تھی
جو ایک محبت کی مچھلی تھی
جو رات کے شروعاتی پہروں کی نیند جیسی تھی
جو صبح کے حسین خواب جیسی تھی
جو کوئل تھی!
کوئل زہر آلود دھماکوں کی زد میں کیسے رہ سکتی ہے۔تو وہ بھی نہ رہ پائی، اسے جانا پڑا، وہ وہاں چلی گئی جہاں اسے کبھی نہیں جانا تھا، کینڈا کے سحر آفرین مناظر سے اسے بلوچستان کی دھول آلود گلیاں زیا دہ عزیزتھیں! اسے کینڈا کی برفیلی ندیوں سے بلوچستان کی خاک آلود سڑکیں زیادہ محترم تھیں۔

اسے کینڈا کی بلیٹ ٹرین سے زیا دہ وہ سواریاں عزیز تھیں جو بھلے بلوچستان کے پہاڑی راستوں پر چلتی ہوں جو بھلے سست رفتار ہوں پر جن کی منزل آنے پر وہ عزیز آتے ہیں جو جان و دل سے زیا دہ عزیز ہو تے ہیں۔
تو کریمہ کی منزل کینڈا نہ تھا
کینڈا تو اس کے سفر کی مجبوری کا منزل تھا!

اس کا منزل آزاد دیس تھا۔آزاد دیس کی آزاد گلیاں تھیں۔آزاد سپنے تھے۔آزاد خواب تھے،جن خوابوں میں تتلی کے رنگوں جیسی باتیں ہوں،اور جن خوابوں سے خوشبو آئے!
کریمہ خواب دیکھا کرتی تھی کہ وہ دھرتی جیسی ہو جائے!
اب دھرتی بلوچستان یہ حسرت کر رہی ہے کہ کاش وہ کریمہ جیسی ہو جائے!
کریمہ نے کبھی اپنے دھرتی کو فراموش نہیں کیا
اب یہ دھرتی اپنی کریمہ کو کیوں کر فراموش کر سکتی ہے
اب دھرتی کریمہ جیسا ہونے کے خواب دیکھ رہی ہے
اب کریمہ سرخ پھول گلاب بن کر دھرتی کے وشال دامن میں کھلِ رہی ہے
اگر یہ کریمہ نہیں تو کیا ہے؟
کبھی کریمہ ڈیرہ غازی خان میں احتجاج کی صورت لے رہی ہے
تو کبھی کریمہ ایک پکار بن کر کراچی کی گلیوں سے ظاہر ہو رہی ہے
کبھی کریمہ شال کی گلیوں میں ہے تو اسلام آباد کے ٹھنڈے مزاج میں نعرہِ مستانہ بن رہی ہے
کریمہ دھرتی سے مل کر دھرتی بن گئی ہے
اپنی دھرتی کی بیٹی کو فراموش مت کرو
کینڈا اس کی منزل نہ تھی
جیسے”کوفہ امام کے سفر کی مجبو ری کی منزل تھا!“
ویسے ہی کینڈا تو اس کے سفر کی مجبو ری کی منزل تھا!
کینڈا تو ایک پڑاؤ تھا
ایک ٹھہراؤ تھا
منزل تو آزاد دیس کی آزاد گلیاں ہیں
جنہیں سنوارنا ہے
میں نے بھی
اور آپ نے بھی!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں