وفاقی وزیر داخلہ اور وزراء کمیٹی کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے ساتھ بھی دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان مغربی بائی پاس پر دھرنے کے شرکاء کے پاس آئے اور چند لمحے ہی شرکا کے ساتھ گزارا۔ انہوں نے مظاہرین سے مخاطب ہوکر کہا کہ امن و امان کا معاملہ صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور اگر وزیراعظم آئے بھی تو وہ یہی کہیں گے۔
وزیر اعلیٰ جام کمال نے شرکاء سے کہا کہ مظاہرین ان کی درخواست مانیں اور میتوں کی تدفین کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آپ لوگ میتوں کی تدفین کریں، وزیر اعظم بھی آئیں گے لواحقین سے ملاقات کریں گے‘۔
تاہم دھرنے کے شرکاء نے ان کی بات نہیں مانی اور یہ کہا کہ جب تک وزیر اعظم نہیں آئیں گے میتوں کے ہمراہ ان کا احتجاج جاری رہے گا۔
اس سے قبل کوئٹہ میں وفاقی وزرا علی زیدی اور زلفی بخاری کے ہمراہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرنے ہوئے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال نے ہزارہ دھرنے کے شرکاء سے درخواست کیا تھا کہ وہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کو مرنے والوں کی تدفین سے مشروط نہ کریں۔
جام کمال کا کہنا تھا کہ ’ہم سب کا آنا اس بات کی گواہی ہے کہ ہم اس کے لیے سنجیدہ ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم دھرنے والوں کے پاس بھی جائیں گے، ان سے بات کریں گے، مظاہرین سے بات کریں گے وہ ہمارے بھائی ہیں۔‘
انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ ’وفاقی وزرا بھی یہاں بیٹھےہیں، وزیراعظم بھی آئیں گے اور صدر مملکت بھی آئیں گے۔‘
واضح رہے کہ 2 اور 3 جنوری کی درمیانی شب مچھ میں 10 کان کنوں کے قتل کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے خلاف کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر ہزارہ برادری کا دھرنا آج چوتھے روز میں داخل ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں مختلف مقامات پر دھرنے جاری ہے۔