بلوچستان اسمبلی میں کریمہ بلوچ کی تدفین میں ریاستی اداروں کی جانب سے رکاوٹ ڈالنے پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے ممبر بلوچستان اسمبلی ثناء بلوچ نے اظہار خیال کرتے ہوئے سوال کیا کہ کرفیو میں میتوں کو لانے سے بلوچستان میں امن کیسے آئے گا؟
انہوں نے کہا ہم کریمہ بلوچ کے سیاسی طریقہ کار اور سیاسی نظریے سے اختلاف کرسکتے ہیں مگر بحیثیت انسان اسکی لاش کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس سے نفرتیں جنم لے گی اور صدیوں تک یہاں کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات محفوظ رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بلوچ اور پشتونوں نے انگریزوں سے کئی جنگیں لڑی، لیکن انگریزوں نے کبھی بھی ہماری لاشوں کی بے حرمتی نہیں کی۔
انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا جو کل مکران میں ہوا یہ ریاست کو زیب نہیں دیتا ہے کہ اختلاف کرنے والوں کا راستہ روکا جائے انکے ہاتھوں سے موبائل فون چھین لیے جائیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آزادی سے لوگوں جانے دیا جاتا اور یہ دیکھ لیتے کہ اس نظریے کے پیروکار کتنے ہیں۔
پاکستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رکن بلوچستان اسمبلی سید احسان شاہ نے کریمہ بلوچ کی نماز جنازہ میں رکاوٹ ڈالنے کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا ریاست کو ایک میت سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کریمہ بلوچ کا تعلق میرے حلقہ انتخاب سے تھا اور وہ بلوچستان کی بچی تھی، انکی نماز جنازہ میں رکاوٹیں ڈالنا ہماری روایت کے منافی ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے خاتون رکن صوبائی اسمبلی
شکیلہ نوید دہوار نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میت سے اتنا خوفزدہ ہے تو سوچو یہاں زندہ انسانوں کے ساتھ کیا کچھ ہوسکتا ہے، بانک کی لاش کی بے حرمتی کا چشم دیدہ گواہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ کریمہ بلوچ نے مر کر بھی مقابلہ کیا آج پورا بلوچستان سراپا احتجاج اور انکی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ اسے عقیدت و احترام کے ساتھ خراج تحسین پیش کررہے ہیں،
حکومتی وزیر ظہور بلیدی نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کریمہ بلوچ کی لاش پر سیاست کی جارہی ہے، حکومت نے کہیں کوئی رکاوٹیں کھڑی نہیں کی ، لوگ آزادانہ طور پر کریمہ بلوچ کی جنازہ پر گئے ہیں اور آج بلوچستان میں انکی غائبانہ نماز جنازہ پر کوئی رکاوٹیں نہیں تھیں لیکن اپوزیشن لاشوں پر سیاست کررہی ہے.
یاد رہے کہ کریمہ بلوچ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چیئرپرسن تھیں اور کینیڈا میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے تھیں گزشتہ سال کی 20 دسمبر کو وہ پراسرار طریاست میت سے اتنا خوفزدہ ہے تو زندہ انسانوں کے ساتھ کیا کچھ ہوسکتا ہے – بلوچستان اسمبلی میں بحث
بلوچستان اسمبلی میں کریمہ بلوچ کی تدفین میں ریاستی اداروں کی جانب سے رکاوٹ ڈالنے پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے ممبر بلوچستان اسمبلی ثناء بلوچ نے اظہار خیال کرتے ہوئے سوال کیا کہ کرفیو میں میتوں کو لانے سے بلوچستان میں امن کیسے آئے گا؟
انہوں نے کہا ہم کریمہ بلوچ کے سیاسی طریقہ کار اور سیاسی نظریے سے اختلاف کرسکتے ہیں مگر بحیثیت انسان اسکی لاش کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس سے نفرتیں جنم لے گی اور صدیوں تک یہاں کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات محفوظ رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بلوچ اور پشتونوں نے انگریزوں سے کئی جنگیں لڑی، لیکن انگریزوں نے کبھی بھی ہماری لاشوں کی بے حرمتی نہیں کی۔
انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا جو کل مکران میں ہوا یہ ریاست کو زیب نہیں دیتا ہے کہ اختلاف کرنے والوں کا راستہ روکا جائے انکے ہاتھوں سے موبائل فون چھین لیے جائیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آزادی سے لوگوں جانے دیا جاتا اور یہ دیکھ لیتے کہ اس نظریے کے پیروکار کتنے ہیں۔
پاکستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رکن بلوچستان اسمبلی سید احسان شاہ نے کریمہ بلوچ کی نماز جنازہ میں رکاوٹ ڈالنے کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا ریاست کو ایک میت سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کریمہ بلوچ کا تعلق میرے حلقہ انتخاب سے تھا اور وہ بلوچستان کی بچی تھی، انکی نماز جنازہ میں رکاوٹیں ڈالنا ہماری روایت کے منافی ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے خاتون رکن صوبائی اسمبلی
شکیلہ نوید دہوار نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میت سے اتنا خوفزدہ ہے تو سوچو یہاں زندہ انسانوں کے ساتھ کیا کچھ ہوسکتا ہے، بانک کی لاش کی بے حرمتی کا چشم دیدہ گواہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ کریمہ بلوچ نے مر کر بھی مقابلہ کیا آج پورا بلوچستان سراپا احتجاج اور انکی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ اسے عقیدت و احترام کے ساتھ خراج تحسین پیش کررہے ہیں،
حکومتی وزیر ظہور بلیدی نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کریمہ بلوچ کی لاش پر سیاست کی جارہی ہے، حکومت نے کہیں کوئی رکاوٹیں کھڑی نہیں کی ، لوگ آزادانہ طور پر کریمہ بلوچ کی جنازہ پر گئے ہیں اور آج بلوچستان میں انکی غائبانہ نماز جنازہ پر کوئی رکاوٹیں نہیں تھیں لیکن اپوزیشن لاشوں پر سیاست کررہی ہے.
یاد رہے کہ کریمہ بلوچ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چیئرپرسن تھیں اور کینیڈا میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے تھیں گزشتہ سال کی 20 دسمبر کو وہ پراسرار طور پر لاپتہ ہوئے اور اگلے روز پولیس نے انکی لاش ایک جھیل سے برآمد کرلی
بلوچ قوم پرست حلقوں نے کریمہ بلوچ کی قتل کو ریاستی قتل قرار دیتے ہوئے کینیڈین حکومت سے شفاف طریقے سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے.
کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے خلاف بلوچستان سمیت دنیا بھر میں احتجاج ہوئے اور دو روز قبل اسکی میت کی منتقلی پر حکومتی رویے کے خلاف ایک بار پھر بلوچستان میں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔
حکومتی موقف کے برعکس سوشل میڈیا میں ایسے ویڈیوز اپلوڈ کیے جارہے ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کریمہ بلوچ کی نماز جنازہ و تدفین میں جانے والے خواتین اور دیگر لوگوں سیکیورٹی اہلکار واپس بھیج رہے ہیں۔ور پر لاپتہ ہوئے اور اگلے روز پولیس نے انکی لاش ایک جھیل سے برآمد کرلی
بلوچ قوم پرست حلقوں نے کریمہ بلوچ کی قتل کو ریاستی قتل قرار دیتے ہوئے کینیڈین حکومت سے شفاف طریقے سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے.
کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے خلاف بلوچستان سمیت دنیا بھر میں احتجاج ہوئے اور دو روز قبل اسکی میت کی منتقلی پر حکومتی رویے کے خلاف ایک بار پھر بلوچستان میں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔
حکومتی موقف کے برعکس سوشل میڈیا میں ایسے ویڈیوز اپلوڈ کیے جارہے ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کریمہ بلوچ کی نماز جنازہ و تدفین میں جانے والے خواتین اور دیگر لوگوں سیکیورٹی اہلکار واپس بھیج رہے ہیں۔