پاکستانی وزیراعظم کی ہدایت پر حکومتی مذاکراتی ٹیم رات گئے کوئٹہ پہنچی جہاں مجلس وحدت مسلمين کے رہنما آغا رضا، شہداء کميٹی کے رکن علامہ علی حسنين اور ديگر رہنماوں سے مذاکرات کيے۔
دوران مذاکرات وفاقی وزیر نے درخواست کی کہ وزیراعظم ضرور آئیں گے لیکن تدفین کے لیے يہ شرط نہ رکھی جائے مگر لواحقین نہ مانے۔ علی زيدی نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ افسوس ہمارے لوگ بھی ان کے ہاتھوں میں کھیل جاتے ہیں۔
علی زيدی اور ذوالفقار بخاری نے بہت اصرار کيا۔ وزرا کی گفتگو کے دوران آغا صاحب نے درميان ميں بولنے کی کوشش کی تو علی زيدی نے ہاتھ جوڑ ديے لیکن وفاقی وزير کا ہاتھ جوڑنا کام نہیں آیا جبکہ دھرنا قائدین اور مقتولین کے لواحقین نے وزیراعظم کی آمد سے قبل تدفین سے بھی انکار کردیا۔
دھرنا قیادت نے موقف دیا کہ شہداء کے ورثا نہيں مان رہے اور ہم وزیراعظم کو سربراہ کی حیثیت سے بلا رہے ہیں۔ یہاں آنے سے انکی عزت میں اضافہ ہوگا۔
مذاکرات کی ناکامی کے بعد وزراء کی ٹيم واپس چلی گئی۔ اس سے پہلے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد بھی دھرنا ختم کرانے کی کوشش کرچکے ہیں تاہم وہ بھی کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔
دوسری طرف وزيراعلیٰ بلوچستان جام کمال آج کوئٹہ پہنچ رہے ہيں۔ ٹوئٹر پيغام ميں ان کا کہنا تھا کہ وہ نجی دورے پر دبئی میں موجود ہیں۔
واضح رہے کہ 2 اور 3 جنوری کی درمیانی شب مچھ میں 10 کان کنوں کے قتل کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے خلاف کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر ہزارہ برادری کا دھرنا چوتھے روز میں داخل ہوگیا۔