کریمہ بلوچ کا کردار ہی ہزاروں کریمہ پیدا کرے گی۔ بی این ایم دیوان سے مقررین کا خطاب

325

بانک کریمہ بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے آن لائن دیوان، چئیرمین سمیت دیگر رہنماؤں کا خطاب

مرکزی آن لائن دیوان سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم چیئرمین خلیل بلوچ نے کریمہ بلوچ کو خراج عقیدت اور سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید کریمہ بلوچ کی بلوچ قومی تحریک میں کردار اور کنٹری بیوشن بلوچ قوم اور پوری دنیا کے سامنے عیاں ہے۔ بانک جدوجہد ہی کو اپنی زندگی کا مقصد بناچکی تھی اپنی مقصد کے حصول کے لیے اپنی آخری سانس تک اسی پر قائم رہی۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا، بانک کریمہ بلوچ نو عمری سے بلوچ قومی تحریک سے وابستہ ہوئیں اور عوامی بیداری کے لیے وہ ہمیشہ لوگوں کے درمیان موجود تھیں۔ بلوچستان میں شہر، دیہاتوں اور پہاڑوں سمیت مختلف علاقوں میں تمام طبقات تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے اور عوام کو متحرک کرنے کے لیے نہایت جرات مندی کے ساتھ کام کیا۔ آج ان کی شہادت بھی بلوچ قومی تحریک کوموبلائز کرنے کا ایک وسیلہ بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا یہ کسی کی وہم وگمان میں نہ تھی کہ دنیا کے محفوظ ترین ملک جہاں انسان، انسانی اقدار سمیت جانوروں کی بھی اہمیت ہے وہاں بانک کریمہ کی صورت میں بلوچ کی نامور ہستی اور بڑی کردار بلوچ سے جدا کی جائیگی۔ بانک کریمہ بلوچ کی زنددگی کوخطرات لاحق تھیں۔ مجھے، شہید غلام محمد اور لالا منیر کو تربت میں معلوم ہوچکا تھا کہ کریمہ بلوچ کے بارے میں تھریٹ موجود ہیں اور کریمہ بلوچ کو محفوظ مقام پر منتقل کی جائے لیکن کریمہ بلوچ اپنی سرزمین پر ان خطرات کا مقابلہ کی اور اپنی جدوجہد، اپنی فکر اور اپنی تنظیم کو آگے بڑھایا۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا بلوچ قومی تحریک آزادی میں ان کا بہت بڑا مقام تھا اور ان کی شہادت ایک ایسے وقت میں ہوتی ہے کہ دشمن گوادر کے گرد باڑ لگا رہا ہے یا شاید اس سے بھی بڑی اسکرپٹ دشمن کے ذہن میں ہو۔ ایسے حالات میں کریمہ بلوچ کی شہادت بلوچ قوم کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب نے دیکھا ہے کہ بانک نہایت بہادری سے لوگوں کو موبلائز اور اپنی تنظیم کو متحرک کرتے رہے۔بلوچستان میں ریاستی جبر کا آغاز ہوچکا تھا۔ سیاسی قیادت کوحراست میں لینا، انہیں قتل کرنا، جیسا کہ چیئرمین غلام محمد کی شہادت، ڈاکٹر منان جان کی شہادت، رضاجہانگیر سمیت دوسرے دوستوں کی شہادت یا اجتماعی قبروں کی برآمدگی سمیت بلوچستان میں ریاستی بربریت اپنے عروج پہ تھیں۔ ریاستی بربریت کا بنیادی مقصد بلوچ کو زیر کرنا اور بلوچ لیڈرشپ کو حواس باختگی کا شکار بنانا تھا۔ ان حالات میں بھی بانک کریمہ میں خوف کے آثار ہم نے نہیں دیکھے بلکہ ان کی بہادری اور مستقل مزاجی کے ساتھ مل کر جدوجہد سے ریاست حواس باختگی کا شکار ہوئی اور بانک کریمہ جیسے لیڈر کو شہید کرنا ریاست کی حواس باختگی کا ثبوت ہے اوراس اقدام سے پاکستان کی بربریت دنیا کے سامنے عیاں ہوتی ہے۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ساجد حسین کے بعد بانک کریمہ بلوچ کے شہادت ریاست پاکستان کی شکست اور بے بسی کی انتہا ہے اور یہ حقیقت دنیا کے سامنے عیاں ہوچکی ہے۔ آج سماج کے تمام طبقات اور کوہ سلیمان سے لے کرتمام علاقوں میں لوگوں نے ریاستی دہشت گردی، جبر اور بربریت کی مذمت کی ہے اور بلوچ قومی تحریک کے ساتھ اپنی وابستگی کی تجدید کی ہے۔

انہوں نے کہا ہمارا سیاسی ماحول یا دشمن کی جبر سے ہمارے بچے کم عمری سے جدوجہد کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ از خود ایک انقلاب ہے۔ ہمارے اس درجے کے رہنماؤں کی قربانی، کردار اور کنٹری بیوشن ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہماری جدوجہد تعطل کا شکار نہ ہو اور ہم کسی اور بڑے سانحے کا منتظر نہ ہوں۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا دشمن ہمیشہ آپ کے انٹلکچول پر حملہ آور ہوتا ہے۔ بلوچ کے دانشور، بلوچ کے لیڈرشپ پر حملہ دشمن کے پالیسیوں کا ایک حصہ ہے۔ دشمن سے مزید ایسے واقعات خارج ازامکان نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی ہم نے لیڈرشپ کی قربانی دی ہے۔ ایسے نقصانات قوموں پر یا آزادی کے جدوجہد میں آتے ہیں۔ سب کا درد ایک ہی ہے لیکن ہرکسی کے درد کا اپنا ایک اثر ہوتا ہے۔ یہ بات ہمیں ذہن نشین کرنا چاہیے کہ آج ہم ایک ایسی شخصیت پر بات کررہے ہیں کہ جس نے سیاسی میدان میں اس وقت قدم رکھی جب ہمارے سیاسی سرکل میں خواتین کی شرکت اور کنٹری بیوشن نہایت ہی کم تھی۔ اس کا آغاز کرنے والوں میں بانک کریمہ سرفہرست تھیں۔ وہ اپنی شہادت تک مستقل مزاجی اور بہادری کے ساتھ سرگرم رہی اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں ہماری بچیاں اور بہنیں کریمہ بلوچ کی تقلید میں میدان میں موجود ہیں۔ ایسے لیڈر اور ایسے کردار کے پیدا ہونے وقت لگتا ہے۔ اس میں سیاسی سرکل اور انسان کی اپنی جرات و بہادری بڑی حد تک کار فرما ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کریمہ بلوچ ایک بہادر ماں کی بیٹی تھیں جس کی جدوجہد اور ساتھیوں کے لیے محبت میں دیکھی ہے اوربانک کریمہ کے لیے ان کی بے کران حمایت میں نے دیکھی ہے۔ ایسی مثالیں ہمیں کم ہی ملتی ہیں لیکن ایسی ہی مائیں کریمہ جنم دیتی رہیں گی۔ اب کریمہ بلوچ کا مشن ساتھیوں کے کندھے پر ہے۔ ہمیں حتیٰ الوسع کوشش کرنا چاہئے کہ ہم دشمن کو دوبارہ ایسی کامیابی کا موقع نہ دیں۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے آخر میں کہا کہ بلوچ قوم اور بلوچ نوجوانوں اور ہمارے ساتھیوں نے بانک کریمہ کوجس طرح ”لمہ“کے خطاب سے نوازا تھا، بانک نے کم عمری کے باوجود اپنی جدوجہد سے اس لقب کاحق ادا کیا اور سرزمین کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔

بی این ایم کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے بانک شہیدکریمہ بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی شہادت کے پس منظر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حقائق اوراعتراف نامہ موجود ہیں کہ پاکستانی آرمی چیف، چیف ایگزیکٹو اور صدر جنرل مشرف سمیت اعلیٰ سرکاری عہدیدارکہہ چکے ہیں کہہ ریاست مخالفت لوگوں کو دنیا میں کہیں بھی نشانہ بنایاجائے گا۔ انہوں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی صحافی وجاہت سعیدسے بات چیت کرتے ہوئے جنرل مشرف کہتے ہیں ہمیں حفظ ماتقدم ڈپلومیسی اپنانا چاہئے، جس پرصحافی انہیں کہتاہے کہ یہ حفظ ماتقدم سفارت کاری نہیں بلکہ اقدام قتل سفارت کاری ہے۔ اس بات جنرل مشرف پس وپیش کے بغیر جواب دیتے ہیں کہ پوری دنیا یہی کر رہاہے اورہمیں بھی کرنا چاہئے اور ساتھ ہی یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ بہت سے لوگ ان کے ذہن میں ہیں (جنہیں نشانہ بنایا جائے)

دل مراد بلوچ نے مزیدکہا کہ ایسی باتیں جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب بانک کریمہ بلوچ کی قتل پر کہتے ہیں کہ انہیں انڈین خفیہ ادارے ”را“نے قتل کی ہے اور مزید ایسے قتل ہوسکتے ہیں۔ چوہدری نثار سرعام کہہ چکے ہیں کہ جنرل مشرف نے لندن میں مقیم سیاستدان الطاف حسین کے قتل کے لئے اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم سے منظوری مانگا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کچھ عرصہ قبل آئی ایس پی آر نے ایک لسٹ جاری کیا تھا کہ ٹی وی چینل صرف ریٹائرڈ جنرلوں سے تجزیہ لے سکتے ہیں ان میں امجدشعیب کانام بھی شامل تھا۔

انہوں نے کہا اتنے سارے اعلیٰ عہدیداروں کے اعترافات کے بعد ہم کسی قسم کے شک وشبہات میں مبتلا نہیں ہیں کہ کریمہ بلوچ کو کس نے قتل کی ہے۔کیونکہ یہ جنرل بظاہر فوج سے ریٹائر ہوتے ہیں لیکن پاکستانی نظام میں جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے ہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ ایک رسم ہوتی ہے بلکہ ریٹائرمنٹ کے بجائے ان کی ذمہ داریاں تبدیل ہوتے ہیں اور وہ پاکستان کی حکومت کا مستقل حصہ بن جاتے ہیں۔

دل مراد بلوچ نے کہا پاکستانی فوج ایک ادارہ نہیں بلکہ پاکستان کامطلب ہی فوج ہوتا ہے کیونکہ پاکستان کے سیاسی و انتظامی نظام، خارجہ پالیسی ومعاملات، خطے اور دنیا میں جنگ و پراکسی جنگ، معاشی واقتصادی معاملات سینکڑوں قسم کے کارپویشن چلانا، دہشت گردی کو بطور بلیک میلنگ بطورہتھیاراستعمال کرنا، یہ سب فوج کا کام ہے اور نام نہاد حکومتیں محض نام کی حد تک ہوتے ہیں۔ فوج سے جو بھی لوگ ریٹائرہوتے ہیں اورمستقل سرکار کا حصہ بن جاتے ہیں اور سترسالوں سے چلے آرہے ہیں، اس نظام کی وجہ سے پاکستان میں فوج باقاعدہ ایک طبقہ بن چکا ہے جو پاکستان پر حکومت کرتا ہے۔ یہ مثالیں میں نے اس لیے دیئے کیونکہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں، بلکہ پاکستانی جنرل خود تصدیق کر رہے ہیں کہ دنیا میں جہاں بھی ریاست مخالف لوگ موجود ہیں ہم انہیں ختم کریں گے۔ یہ جنرل پاکستان کی مستقل حکومت کا بیانیہ پیش کرتے ہیں، اسے ایک یا دو ریٹائر جنرل کی صرف رائے نہ سمجھاجائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو یہ فوج برٹش انڈین فوج سے وراثت میں مل چکاہے جس کا سب سے بڑا کام ہندوستانی بغاوتوں یا تحریک آزادی کو کچلنا تھا۔ یہ ہمیں پتہ ہے کہ برٹش انڈین فوج نے کس طرح ہندوستانی تحریک آزادی کو کچلا تھا۔ اس فوج کے پاس اندرونی بغاوتوں سے لڑنے وسیع تجربہ ہے، جہاں بھی برطانوی سرکار کو لڑنے کے لئے فوجی درکار ہوتے تو مقامی جاگیردار، سردار، وڈیرے اسے فوجی فراہم کرتے تھے۔ اس کے بدلے میں برطانوی سرکار انہیں انعام و اکرام، القابات اور بڑی بڑی جاگیروں سے نوازتا تھا۔ کرایے کے سپاہی پیش کرنے میں آج کا پاکستانی پنجاب سب سے آگے تھا۔ آج انہی کرایے کے سپاہی بھرتی کرنے اور برطانوی راج سے انعام پانے والے کا نام پاکستان فوج ہے۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ برٹش انڈین فوج داخلی بغاوتوں اورتحریک آزادی کوکچلنے میں ماہر تھا۔ مگر برٹش انڈین سے پاکستان کے حصے میں آئے فوج کا سامنا بلوچ سے ہے جو انتہائی بربریت اور ہولناک مظالم کے باوجود بلوچ کے جنگ کو نہیں کچل سکاہے۔ انگریزوں کی طرح بلوچ جنگ کوکچلنے کے لئے پاکستانی فوج کا سب سے بڑا ہتھیار مقامی دلال اور غدار ہیں۔ پاکستانی فوج کے سرشت میں شامل ہے کہ یہ کبھی بھی کسی ملک کا مقابلہ نہیں کرسکتاہے،کسی ملک سے جنگ نہیں لڑ سکتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس پر ایران روزانہ مارٹر گولہ فائر کرتا ہے۔ اس پر چالیس سالہ خانہ جنگی سے تباہ حال افغانستان حملہ کرتاہے۔ جہاں جہاں یہ سرحد پر باڑ لگاتا ہے، افغانستان وہ باڑ اکھاڑ دیتا ہے۔ یہ فوج افغانستان جیسے تباہ حال ملک کا مقابلہ نہیں کرسکتاہے کیونکہ اسکی تاریخ و تجربہ اندرونی جنگوں اور بغاوتوں کو کچلناہے لیکن برٹش انڈین فوج کے وراثت اور اندرونی بغاوتوں کوکچلنے کے وسیع تجربے کے باوجود یہ فوج بلوچ کی جنگ کو نہیں کچل سکا ہے۔ یہ پاکستانی فوج کے لئے پہلا تجربہ ہے کہ وہ بلوچ کے ساتھ براہ راست جنگ نہیں لڑسکتاہے کیونکہ بلوچ محض ایک جنگ نہیں لڑ رہے ہیں محض ایک گوریلا وارفیئر نہیں ہے بلکہ بلوچ کا ایک مکمل اور باقاعدہ سیاسی تحریک ہے۔ اس تحریک میں بلوچ سماج کے تمام طبقات سیاسی و شعوری بنیاد پر شامل ہیں۔ اس لئے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فوج وہی برطانیہ کی طرز پر عمل پیرا ہے کہ مقامی دلال، غدار اور وار لارڈز اور سرداروں کا استعمال کر رہا ہے۔ اس وقت جب ہم اپنے بانک کو یاد کررہے ہیں، اسی وقت پنجگور، آواران اور واشک کے درمیانی علاقے میں تباہ کن فوجی آپریشن جاری ہے۔ دس سے زائد نہتے لوگ قتل کئے گئے ہیں۔ گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹائے جارہے ہیں۔ یہ ثابت کرتاہے کہ پاکستانی فوج براہ راست بلوچ کا مقابلہ نہیں کرسکتاہے۔ اس لئے نہتے لوگ نشانہ بن رہے ہیں۔ سیاسی ورکر نشانہ بن رہے ہیں۔ گاؤں، دیہات اور عام آبادی نشانہ بن رہے ہیں۔ بزگروشوان نشانہ بن رہے ہیں۔اور وہاں بانک کریمہ نشانہ بنتاہے۔

دل مراد بلوچ نے کہا ہم کسی شک میں مبتلا نہیں کہ بانک کریمہ کی قتل کے خلاف کونسی قوت کارفرما ہے۔ جنرل مشرف، جنرل امجد شعیب اور چوہدری نثارکے اعترافات اور بیانات میڈیا میں ہیں کہ پاکستان ریاست مخالف اور آزادی پسند لوگوں کوقتل کرنے کے لئے کیسے منصوبے رکھتاہے۔ پاکستان الطاف حسین جیسے لیڈر کو لندن میں ختم کرنا چاہتا ہے جسے برطانیہ نے سیاسی پناہ دی ہے۔ جب بھی فوج میں اندرونی تضادات اٹھتے ہیں تو ایسی باتیں سامنے آتے ہیں۔

انہوں نے کہا جرنیلوں نے جس پروگرام کا اعتراف کیا تھا، اس کا آغاز انہوں نے ساجدحسین کے قتل سے کیا۔ ساجدحسین ہمارے لئے بڑی ہستی تھے۔ چونکہ وہ بڑے دانشور اورصحافی تھے، انہیں صحافی اور دانشور حلقہ اوربلوچ سیاسی ورکر جانتے تھے۔ وہ ایک سیاسی شخصیت نہیں تھے، اس لئے ان کے قتل کے خلاف ردعمل بلوچ قوم، سیاسی،صحافتی اور دانشور حلقے کی جانب سے آیا لیکن عوامی ردعمل سامنے نہ آسکا۔

دل مراد بلوچ نے کہا ہم بانک کریمہ بلوچ کی شخصیت کا اندازہ کیسے لگائیں؟ جولوگ جانتے ہیں تو وہ آگاہ ہیں۔ لیکن جو لوگ براہ راست بانک کو نہیں جانتے تھے وہ کیسے اندازہ لگائیں کہ بانک کی شخصیت کتنی بڑی تھی۔ ان کی شہادت پر ردعمل نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کتنی عظیم شخصیت تھیں۔ ایک پیمانہ مروج ہے کہ کسی بھی شخصیت کی قد و قامت کا اندازہ لگانا اس کے موت یا شہادت پر ردعمل یا جنازے سے لگایا جا سکتا ہے۔ وہ مائیکل جیکسن ہوں، بھال ٹھاکرے ہوں یا حالیہ دنوں مرنے والے خادم رضوی۔ ان کے جنازوں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی، لیکن یہاں عظمت کا فیصلہ کیونکر ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خادم رضوی کا کام کیا تھا؟ عظمت کا پیمانہ جانچنے کے لئے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ان شخصیات نے کس شعبے یا فیلڈ میں کام کیا ہے اور کون ساطبقہ انہیں خراج عقیدت پیش کر رہا ہے۔ اور جو طبقہ انہیں خراج عقیدت پیش کر رہا ہے، اس کا شعوری پیمانہ کیا ہے۔ یہاں ہمیں اس بات کا جواب ملتا ہے کہ مائیکل جیکسن کے جنازے میں میوزک اور رقص کے شیدائی شریک ہوئے۔ بھال ٹھاکرے کے جنازے میں بنیاد پرست شامل رہے اور خادم رضوی کے جنازے میں مذہبی جنونی۔۔۔ لیکن بانک کریمہ کی قتل کے خلاف کون بات کر رہاہے۔ یا بانک کا فیلڈ کیا تھا؟۔ بانک کا فیلڈ صاف شفاف بلوچستان کی آزادی اور انسانی شرف تھا۔ بانک علی لاعلان کہتی تھیں کہ میں پاکستانی نہیں ہوں اور میں نہیں چاہتی کہ کوئی مجھے پاکستانی کہے۔ ان کا منزل مقصود ایک ہی تھا یعنی بلوچستان کی آزادی۔۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بانک کیلئے وہی لوگ یا وہی طبقات آواز اٹھارہے ہیں جو بلوچ کی آزادی یا انسانی شرف پر یقین رکھتے ہیں۔ وہی آزاد خیال و آزاد فکرانسان کہ جو انسانی عظمت کے قائل ہیں، بلوچ کے ساتھ ساتھ وہی لوگ آج آوازاٹھارہے ہیں۔ ایک طبقہ اوربھی ہے جو نہ بلوچ کی آزادی پر یقین رکھتاہے اور نہ ہی انسانی شرف اس کے لئے کوئی بڑی معنی رکھتاہے۔ وہ بہ امر مجبوری آواز اٹھارہے ہیں۔ وہ اس لیے کہ اس وقت انہوں نے آواز نہ اٹھائی تو انہیں سیاسی نقصان کا اندیشہ ہے یا دنیا انہیں لعنت ملامت کرے گی کہ ایک بین الاقوامی پہچان کے حامل شخصیت کی قتل پر وہ خاموش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بانک کی قتل کے خلاف ردعمل کو دیکھ کرہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ بانک کریمہ اپنے فیلڈ اور مقصد کی حصول کے لئے کامیاب رہے۔ وہ بلوچ کی آواز، بلوچ کی آزادی کے سلوگن کو نہ صرف بلوچستان،اس خطے میں بلکہ دنیاکے کونے کونے میں ہر باشعور اور انسانی عظمت کے قائل لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ بانک کی کامیابی کی واضح ثبوت ہے۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ بانک کریمہ کی شخصیت کا ایک پہلو نہیں کہ جس کا ایک ہی نشست میں تجزیہ کی جائے۔ بانک ہمہ جہت شخصیت کی مالک تھیں۔ ایک باغی کی حیثیت سے انہوں نے سماج کے غلط اور دقیانوسی روایات کو رد کرکے میدان میں نکلی۔ ایک باشعور انسان کی حیثیت سے جہاں بھی ہماری ملاقات ہوتیں تو ان کا رویہ ایک باشعور کی طرح دیکھتے اورصنفی امتیاز کو بالائے طاق رکھ کر گُل مل کر کام کرتی۔ مشکل کام،مشکل سفرسے کبھی اجتناب نہیں برتی۔ ایک بہادر سیاسی رہشون کی حیثیت سے وہ خطروں کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی تھیں۔ بلوچ قومی تحریک کے خلاف دو باتیں ہمیشہ سے مشہور رہی ہیں۔ ان میں پہلا یہ کہ یہ تحریک تین سرداروں کی بغاوت یا گڑبڑ کا شاخسانہ ہے جو ریاست سے جب ناراض ہوتے ہیں تو اپنے قبائل کو ریاست کے خلاف لڑنے کے لئے اکساتے ہیں لہٰذایہ یہاں مقامی انڈیجینئس موومنٹ نہیں ہے۔ اور دوسرا الزام یہ کہ بلوچ تحریک میں خواتین کی شرکت نہیں یا نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ لیکن آج بلوچ کی جدوجہد نے دونوں الزام غلط ثابت کر دیئے ہیں کہ یہ تحریک تین سرداروں کی گڑبڑ کا شاخسانہ ہے اور بلوچ خواتین کی شراکت داری نہیں ہے۔ آج خواتین نہ صرف برابر شریک ہیں بلکہ لیڈنگ رول بھی ادا کر رہی ہیں۔ اس باب میں بہت بڑا کریڈٹ بانک کریمہ کو جاتی ہے۔ وہ سیمبل اورعلامت ہیں۔ آج بلوچ تحریک آزادی میں خواتین برابر شریک ہیں اور یہ تین سرداروں کاموومنٹ نہیں رہا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس موومنٹ سے قبل اوراس موومنٹ کے اوائل میں سیاسی تحریک چند شہروں تک محددد تھا۔ یہ بانک کریمہ بلوچ اور ڈاکٹرمنان جان تھے جنہوں نے دیہی اورپہاڑی علاقوں میں کام شروع کیا۔ بانک کریمہ آواران، جھاؤ، بالگتر، پنجگور، پروم، گریشگ، خضدار، سوراب میں قومی مقصد کے لئے کام کرتے رہے۔ ایک خاتون ہوتے ہوئے یہ کام آسان نہ تھے لیکن یہ بانک کی عظمت، شعور، دور اندیشی کو ظاہرکرتے ہیں کہ جب تک ہم دیہی اور پہاڑی علاقوں میں لوگوں کو موٹیویٹ اور موبلائز نہیں کرتے ہیں ہمارے لیے کامیابی مشکل ہے۔ کیونکہ وہ اس حقیقت سے آگاہ تھیں کہ بلوچ کا چھوٹا حصہ شہروں میں اور اکثریت دیہات میں بستاہے۔ یہ کارنامہ بانک نے سرانجام دی۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ سفارتی اور ڈائسپورہ کے میدان میں ہماری وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ لیکن اس تحریک نے بلوچ کو اچھا خاصا ڈائسپورہ دی ہے۔ اس میں بھی بانک کا کردار موجود ہے اور آج کا بلوچ دائسپورہ محض نام کا ڈائسپورہ نہیں کہ جی سیاسی پناہ حاصل کی اور خاموشی سے بیٹھ گئے یا سوشل میڈیا میں کبھی کبھار کوئی ایک پوسٹ شائع کی۔ بلکہ ایک متحرک ڈائسپورہ ہے، اس کے موٹیویشن میں بانک کا کردارنظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بانک کے قتل نے ثابت کردیاہے کہ بلوچ قومی تحریک عالمی سطح پر اپنا وجود منوا چکی ہے اور بلوچ ڈائسپورہ اسی طرح پاکستان اور پاکستانی وجود کے لئے خطرناک ہے جس طرح بلوچستان میں موجود تحریک پاسکتان کیلئے ایک خطرہ ہے۔ یہ بلوچ قومی تحریک کے بین الاقوامی پرموجودگی کی واضح دلیل ہے۔ اسی خطرے کو بھانپ کر پاکستان نے بلوچ ڈائسپورہ کے خلاف کاروائی کا آغاز کر دیا ہے اور بلوچ قوم نے بھی ساجدحسین اور بانک کریمہ بلوچ کے قتل کے خلاف ریاست پاکستان کو چلینج کی ہے کہ بلوچ قوم بلوچستان کے اندر اور بیرون بلوچستان تمہارے مظالم کا مقابلہ کریے گی۔ تمہارے مظالم بلوچ کو ختم نہیں کرسکتے بلکہ یہ بربریت اور مظالم ریاست پاکستان کو دنیاکے سامنے مزید رسوا کرے گی۔ اورایسے ہستیوں کے سفاکانہ قتل سے ہماری تحریک کو نئی توانائی مل جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ بانک کے قتل سے ہم نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایاہے۔ بانک کے متبادل کے پیدا ہونے میں بڑا عرصہ درکار ہوگا۔ لیکن بانک کے کردار نے ان کا متبادل پیدا کی ہے اور بانک کی قتل نے بلوچ قوم کوایسی توانائی فراہم کی ہے کہ جب تک دنیا باقی ہے جب تک بلوچستان آزاد نہیں ہوگا، یہ طاقت اور توانائی ہمارا ہمراہ ہے۔

آن لائن دیوان سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم کے ڈائسپورا کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بانک کریمہ بلوچ کو سلام اور خراج عقیدت پیش کی اور کہا کہ وہ بلوچستان کی جدوجہد آزادی میں نمایان مقام اور کارنامہ کی وجہ سے بی ایس او آزاد میں چئیرپرسن کی عہدے تک جاپہنچیں جو نہ صرف بی ایس او کی تاریخ میں پہلی خاتون سربراہ تھیں بلکہ بلوچستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے وہ پہلی سربراہ تھیں۔ اس طرح اس نے بلوچ سماج میں ایک انقلاب لاکر خواتین کو سیاسی جدوجہد کی جانب راغب کیا۔ آج اس جدوجہد میں خواتین کی شرکت میں ایک بڑا کنٹریبوشن بانک کریمہ بلوچ کا ہے۔ اس کا قتل نہ صرف بلوچ قوم بلکہ تمام محکوم قوموں کیلئے ایک عظیم سانحہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسکی شہادت کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، اس سے ہم بلوچ قوم اچھی طرح واقف ہیں۔ ماضی کی دھمکیاں، اس کے گھر پر مارٹر حملے، اس کے چاچا، ماموں اور کزن کا پاکستانی فوج کے ہاتھوں قتل اس بات کی گواہ ہیں کہ کریمہ بلوچ کو انہی قوتوں نے شہید کیا ہے۔ کینیڈا کی سرکار کو چاہئے کہ جنرل مشرف کی دھمکی آمیز ویڈیو اور چوہدری نثار کی انکشافات کو بھی اس تحقیقات کا حصہ بنائے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ کریمہ بلوچ جس پروفائل کی شخصیت تھیں اس کا اندازہ بلوچستان میں لوگوں کے ردعمل اور بیرون ممالک لوگوں کی یکجہتی اور احتجاجوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ وہ جہد ِآزادی میں بہترین خدمات پر بی بی سی کی سو با اثر خواتین کی فہرست میں بھی پاگئیں۔ اس پایہ کی لیڈر کا قتل بلوچ قوم کی جدوجہد کو کچلنے اور بیرون ملک رہنماؤں کو خوفزدہ کرنے کی پالیسی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی ادارے گھبراہٹ کا شکار ہوکر اسے بھارتی خفیہ ایجنسی را کی کارستانی قرار دے رہی ہیں۔ یہ چور مچائے شور کے محاورے کے مصداق ہے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ بانک کریمہ کے سیاسی ساتھی اسے براہوئی کے لفظ ”لمہ“ یعنی ماں سے جانتے اور یاد کرتے تھے۔ آج کریمہ بلوچ نے اس لفظ کی معنی اور افادیت پر پوری اتر کر خود کو بلوچ عوام اور بلوچستان کیلئے قربان کیا۔

آن لائن دیوان سے بات کرتے ہوئے کینیڈا میں مقیم پارٹی رہنما اور دانشور ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا کہ میں بانک کریمہ کو بلوچ قومی تحریک آزادی کی بین الاقوامی سفیر، نمائند ہ اور علامت بانک کریمہ بلوچ کوسرخ سلام پیش کرتا ہوں۔ ہم نے پانچ سالوں سے یہاں کینیڈا میں اکھٹے سیاسی سرگرمیاں انجام دی ہیں۔ یہ ایک مشکل وقت ہے۔ کریمہ بلوچ کی شہادت ہم سب کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایسی راہ ہے کہ اس میں ہمارے بہت سے رہبر، ہمارے سیاسی کارکن شہید کیے گئے ہیں۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جس کے لیے ہم ذہنی طور پر تیار نہیں تھے کہ دشمن اتنے قریب آکر ہماری نظروں کے سامنے ہمارے اعلیٰ اور اہم ترین لیڈرکو اس طرح ہم سے جدا کرتا ہے۔ یہ ہمارے لیے، کینیڈا میں مقیم ہماری کمیونٹی کے لئے، پوری ڈائسپورہ کے لئے بہت بڑا دھچکاہے۔اس کے اثرات چھوٹے بچوں سے لے کرخواتین اور وہ لوگ جنھوں نے بانک کریمہ کو سنا تھا، اس کی سیاسی سرگرمیاں دیکھی تھیں، یہاں کینیڈا میں پی ٹی ایم کے لوگ ہوں،سندھی کانگریس اورسندھی ڈائسپورہ ہو یا ترقی پسند،سبھی پر گہرے اثرات پڑے ہیں۔ کوئی اسے قبول نہیں کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر ظفربلوچ نے کہا ہم بانک کریمہ کی سیاسی زندگی پر ایک طائرانہ نظرڈالیں کہ ایک اسٹوڈنٹس رہنما جو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے ابھرتی ہے اور بارہ، چودہ سال کے دورانیے میں اس مقام پرپہنچتاہے کہ وہ ایک سیاسی لیڈر بن جاتی ہے اور ایک سیاسی لیڈر سے ایک عالمی شخصیت بن جاتی ہے۔ ان کی جلاوطنی کی زندگی بہت مختصر یعنی پانچ سال سے بھی زیادہ نہیں، ان پانچ سالوں میں شہید بانک کریمہ بلوچ نے بلوچ جدوجہد اوراس کی تمام پہلوؤں یعنی بلوچ نیشنلزم، تحریک آزادی، بلوچستان میں انسانی حقوق کے مسائل، بلوچ سماج میں پسماندگی کے شکار خواتین کے مسائل کو ایڈریس کرکے انہیں بین الاقوامی سطح پر سامنے لائی۔ بلوچ خواتین کے لیے بانک کریمہ ایک ایسی مثال،مشعل راہ اور رہبرتھیں۔ لیکن شہادت کے بعد ردعمل بھی بہت سخت ہے۔ ان کی شخصیت ایسی سحر انگیز اور پر اثر تھا کہ آج کوئی ایسی آدمی یاعورت نہیں ہے جو بانک کے شہادت سے متاثر نہ ہوا ہو۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جوان کی سیاست سے بھی آگاہ نہیں تھیں لیکن بانک کی شخصیت اور سرزمین کی آزادی کے لیے اعتقاد تھی کہ لوگ متاثر ضرور تھے۔

ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا زندگی کے آخری پانچ سال ہم نے اکھٹے گزارے ہیں۔ ان کی شخصیت اتنی ہمہ گیر تھی کہ ان کی ہر ایک پہلو پر الگ ایک کتاب تصنیف کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے بلوچ نیشنلزم اور بلوچ قومی تحریک آزادی کو ایک سفیر کی حیثیت سے ایسی بلند مقام پر پہنچائی کہ اس کے اثرات کا ان کی زندگی میں مشاہدہ کیا تھا کہ لوگ کس طرح انہیں سنتے تھے۔ ان کی باتوں کا اثرات تھے لیکن آج ان کی شہادت کے بعد انکی شخصیت میں جو اضافہ ہوا ہے وہ میرے تصورات سے بھی بہت آگے ہیں۔اس کا مشاہدہ آج بلوچستان سے لے کرپوری دنیا میں عوامی ردعمل کی صورت میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ مثلاََ میں نے کبھی تصوربھی نہیں کیا تھا کہ اور تو اور مسلم خواتین ایسوسی ایشن (کینیڈا) کا ردعمل سامنے آتی ہے کیونکہ بانک کریمہ بلوچ کی جدوجہد اور فکربلوچ نیشنلزم کے حوالے سے سیکولر سیاسی تحریک کا حصہ ہے لیکن یہ ان کی شخصیت کی اثرات ہیں کہ اسلامی شخص کے حامل ایسوسی ایشن بھی شہادت سے متاثر ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کی کمزوری یا قوت مدافعت کی مفقودگی اس وقت سامنے آتاہے جب وہ بربریت و متشدد ریاست کی شکل اختیارکرتاہے۔ یہ بین الاقوامی سطح پر مانا گیا اصول ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانی ریاست روز بہ روز کمزور ہو رہا ہے۔ اس کی ریاستی قوت مدافعت اور جس نظریے پر وہ قائم ہے، اس کی کمزوری کے نتیجے میں آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ ظلم، جبر، قتل عام وغارت گری کے سہارے خود کو زندہ رکھنے کی کوشش میں ہے۔ اس کی زندگی کا دار و مدار فقظ عسکری قوت کے بل بوتے پر قائم ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی تنہائی میں بلوچ قومی تحریک آزادی کا ایک بہت بڑا کردار ہے۔ پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ اس کردار کو کم سے کم کرسکے۔ لیکن اس کردار کو کم کرنے کے لئے اس کے پاس کوئی سیاسی راستہ نہیں کیونکہ بلوچ کوچلینج کرنے کے لئے پاکستان کے پاس اخلاقی جوازختم ہوچکا ہے۔ اس لیے بلو چستان میں پاکستان جو قتل وغارت گری کر رہا ہے، اسی طریقہ کار کو عالمی سطح پر سامنے لا رہے ہیں۔ اس میں پاکستان اکیلا نہیں بلکہ ایران بھی اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بناتا آیا ہے۔ یہی صورت صورت حال چین کا بھی ہے۔

ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا ہمیں اس صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح ہم اپنی سرزمین پر دیکھ رہے ہیں کہ تمام تر ریاستی بربریت اور پابندیوں اور کئی سالوں کے جبر، قدغن اور خوف کے ماحول کو اس شہادت نے ایک ہی دن میں نیست و نابود کر دیا اور ہر جگہ محکوم قوموں اور اپنے دوست خواہوں کی مدد و حمایت حاصل ہے۔ اس وقت بلوچ تنہا نہیں ہے۔ بلوچ قومی تحریک آگے بڑھے گا۔ بلوچ نیشنل موومنٹ ہو یا اس سے قبل بی ایس او آزاد کہ جس کا رہبر و رہنمابانک کریمہ تھی، بانک کریمہ ایسی جدوجہد کی نمائندہ کرتی تھیں۔ لازم ہے کہ وہ جدوجہدقومی آزادی حاصل کرے گی۔ اب بانک کریمہ کی سیاسی وراثت بین الاقوامی سطح پر ہمیں آگے بڑھانا ہے۔

دیوان سے خطاب کرتے ہوئے قاضی داد محمد ریحان نے کہا ہم دنیا کے سیاسی کارکنوں یا پارٹیوں سے مختلف ہیں کیونکہ وہ اپنے گھروں میں اپنوں کے ساتھ ہیں، ان کی زندگیوں یہ تلخیان اورمشکلات نہیں ہیں جن سے ہم دوچار ہیں۔ ہم ایک ایسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسی پارٹی سے وابستہ ہیں کہ ہماری اکثریت اپنے عزیز و اقارب دور یا جلاوطنی کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔ ہماری تمام تر وابستگیاں تحریک اور پارٹی سے منسلک ہیں۔ اس لیے آج نہ صرف ہم سے ہماری ایک سیاسی دوست جدا کیا گیا ہے بلکہ ہمارے خاندان کا ایک ایسی مہروان فرد جدا کیا گیا جسے ہم جتناچاہتے تھے اس سے کئی درجہ زیادہ وہ ہم سے الفت رکھتی تھیں۔

انہوں نے کہا ہم ایک ایسے مہربان رہنماسے محروم کیے جاچکے ہیں جو روز پیدا نہیں ہوتے ہیں بلکہ ایسے رہنماؤں کے پیداہونے میں صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ لیکن تحریک روانی اورتسلسل کا نام ہے۔ اس لیے ہمیں پُرس و ماتم کے بجائے آگے بڑھناہے۔ اس تحریک میں ہم قریبی ساتھی اپنی لیڈرشپ قربان کیے ہیں۔ آج ہم نے کریمہ بلوچ کی قربانی دی ہے۔ اگر ہم پس وپیش اور گومگوں کا شکار ہوئے تو جتنا لہو ہم نے بلوچ قومی آزادی کے لیے بہایا ہے ممکن ہے کہ یہ رائیگاں ہوں۔

قاضی داد محمد ریحان نے کہا ہم پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جس طرح دوست بات کررہے ہیں بین الاقوامی سطح پر بلوچ کا آواز آگے بڑھانا ہے۔ شہید غلام محمد اکثر کہا کرتے تھے کہ شہداکے لہو کو ہمیں تحریک کے لیے ایندھن بنانا چاہئے۔ شہادت کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ کا نقصان ہو رہا ہے آپ کے بہترین لوگ آپ سے جدا کیے جارہے ہیں لیکن تحریک سے وابستہ لوگوں میں بردباری ہو، وہ آگے بڑھناجانتے ہوں، ان کے پاس بصیرت اور فکر ہو تو وہ اس زیاں کو سود میں بدل سکتے ہیں، وہ اس نقصان کواپنے تحریک کے لئے ایندھن اور بجلی کی سی قوت میں بدل دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج ہم بلوچستان میں دیکھ رہے ہیں کہ بانک کریمہ بلوچ کی شہادت کے بعد ایک آگہی و بیداری آیاہے۔ قبل ازیں جب بھی بلوچ لیڈرشپ شہید ہوئے ہیں تو بلوچ راج اُٹھ کھڑا ہوا ہے، انہوں نے احتجاج کی ہے اور ہر واقعہ کے بعداس آواز میں اضافہ دیکھنے میں آیاہے کیونکہ پاکستان اپنے بربریت سے پیچھے ہٹنے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آزادی کی قومی تحریک کو چلانے کے لیے سیاسی پارٹیوں کا ایک اہم کردار ہوتا ہے اور لازمی طور پر بلوچ نیشنل موومنٹ ہو، بی ایس او ہو یا دوسری آزادی پسندپارٹیاں ہوں۔ ان سب کا کردار اور کاوشیں ہیں لیکن ہماری دشمن نے ہمیں زیادہ مواقع فراہم کی ہے۔ ہماری ابلاغ و آگہی سے زیادہ دشمن نے اپنے بربریت سے بتایا کہ وہ آپ کا دشمن ہے اور وہ کسی بھی طرح آپ کی وجود کو برداشت نہیں کرسکتاہے۔ خواہ آپ مسلح جہد کار ہیں تو آپ کو مارے گا، آپ حیات کی شکل میں گھر پر بیٹھے ہیں تو بھی آپ مارے جائیں گے۔ دشمن کی اس بربریت نے از خود ایک آگہی پیدا کی ہے۔ ہم بلوچستان میں جہاں لوگ اپنی بلوچیت سے ناآشنا تھے آج وہ لوگ بھی کہتے ہیں ہم بلوچ ہیں۔ یہ آگہی وبیداری بانک کریمہ کی قربانی کاثمر ہے جو انہوں نے بلوچستان کے لیے دی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس آگہی و بیداری کی تسلسل کومنظم اور قائم رکھنا سیاسی پارٹیوں بالخصوص بی این ایم کی ذمہ داری ہے۔ بی این ایم کے کارکنوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس آگہی و بیداری کونظریاتی، سیاسی و سائنسی بنیادوں پرآگے بڑھائیں اور ہمیں اپنے کارکنوں اور کیڈرز کی سائینٹیفک اور پیشہ ورانہ بنیادوں پر تربیت کرنا چاہئے اور ہمیں ادارہ جاتی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے کارکنوں کی اس حد تک سیاسی مہارت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کسی بھی بین الاقوامی مشن پر بات کرنے کے ہنرسے آشنا ہوں۔ بالخصوص سیاسی پناہ حاصل کرنے والے دوستوں کواپنی ذمہ داریوں اور اس امر کا ادراک کرناچاہئے کہ بی این ایم تحریک کامحض ایک جز نہیں بلکہ ہماری نظرمیں بی این ایم بلوچ قومی تحریک کابہت بڑا حصہ اورتحریک کا قیادت کرنے والی پارٹی ہے۔ جب تک ہم اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہیں کرپائیں تو ہماری نقصانات زیادہ ہوں گے۔

قاضی داد محمد ریحان نے کہا ہمیں لفاظی اور وقت گزاری کے بجائے تحریک پر اپنا توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔ پارٹی کارکن جہاں بھی موجود ہیں وہاں کے لوگوں کوبانک کریمہ کی شہادت اور اس کے محرکات کے بارے آگاہی دیں۔ بلوچستان کی صورت حال سے آگاہ کریں جیسے کہ گوادر کا مسئلہ ہے۔ گوادربلوچستان کا دل ہے۔اگر گوادر ہم سے چلا گیا تو ممکن ہے کہ بلوچ کے پاس کچھ بھی باقی نہ رہے۔ بانک کریمہ کی جدوجہد اور شہادت پر آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ دوسرے مسائل پر بھی بات کرناچاہئے کیونکہ یہ ہماری موت وزیست کاسوال ہے۔