بلوچ رہنماء اور بی ایس او کے سابق چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ کے مبینہ قتل کے خلاف آج بروز ہفتہ بلوچ یکجہتی کمیٹی ڈیرہ غازی خان کی جانب سے کالج چوک سے لیکر غازی خان چوک تک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں سیاسی جماعتوں، طلباء تنظیموں، وکلا برادری اور مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
احتجاجی مظاہرے میں مقررین نے بانک کریمہ بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بانک کریمہ ایک کرشماتی رہنماء اور پائے کے سیاسی کارکن تھے۔ ڈیرہ غازی خان سے لیکر مکران تک جدوجہد کرنے والی کریمہ بلوچ نے بلوچ قوم کو ایک ایسے شعور سے نوازا جس پر آج بھی بلوچ نوجوان کاربند ہیں۔ انہوں نے بلوچ قومی سیاست کی ایک ایسے وقت میں رہنمائی کی جب بلوچ سیاسی عمل جمود کا شکار تھی، بلوچ طالبعلموں کو مایوسی گھیر چکی تھی، ریاست کی جانب سے مارو اور پھینکو کی پالیسی میں تیزی لائی جا چکی تھی، سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی کارکنان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جا رہی تھیں اور تنظیمی کارکنان کو معمول کے مطابق جبری پر لاپتہ کیا جا رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب پورے بلوچستان میں خوف کی ایک دہشت ناک فضا قائم تھی بانک کریمہ اپنی موقف پر ڈٹے رہ کر بلوچ قومی سیاست کو جلا بخش رہی تھی۔ بانک کریمہ بلوچ کی ہمت و استقلال کے بدولت بلوچ طلباء سیاست نے ایک الگ اور واضح سمت اختیار کی ہے۔ بانک کریمہ جہد مسلسل کی علامت تھی اور انہیں اُن کی لازوال قربانیوں پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
مقررین نے مزید کہا کہ بانک کریمہ کی موت کوئی سانحہ نہیں بلکہ ریاستی مارو اور پھینکو پالیسی کا تسلسل ہے۔ بانک کریمہ بلوچ کا بیرون ملک قتل جلاوطن سیاسی کارکنان پر حملے کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ اِس سے پہلے ساجد بلوچ کو سویڈن ہی میں لاپتہ کر کے شہید کیا گیا جبکہ متحدہ عرب امارات سے انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کو لاپتہ کیا گیا جس کی گمشدگی کو آج 26 دسمبر کو دو سال مکمل ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک بلوچ سیاسی کارکنان کو خاموش کرنے کے لیے دھونس دھمکیوں سے کام لینا اور انہیں قتل کرکے ویرانے میں اُن کی لاشیں پھینکنا عالمی اداروں اور مہذب ممالک کے ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بیرون ملک رہائش پذیر بلوچ سیاسی کارکنان پر انسان حقوق کے اداروں سمیت تمام ممالک کی خاموشی اُن کی متعصبانہ رویے کی عکاس ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں کا خاموشی کا لبادہ اوڑھنا ریاستی پنجوں کو مزید مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی سرزمین کو اس سے پہلے بلوچ قوم کے لیے تنگ کیا جا چکا ہے. بلوچستان میں آئے روز آپریشن کیے جا رہے ہیں، گھروں کو جلایا جارہا ہے، سیاسی کارکنان کو جبری طور پر گمشدہ کیا جارہا ہے نیز تمام طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ ایک ایسی فضا سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھنا نہایت ہی دشوار ہے اور یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی کارکنان بیرون ملک پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کی ظلم و بربریت جو کہ اِس سے پہلے صرف بلوچستان تک محدود تھی اب بیرون ملک تک پہنچ گئی ہیں۔ ریاستی خونی پنجوں کا محور اب بیرون ممالک بلوچ پناہ گزین ہیں جنہیں خود کی سرزمین سے مجبوراً بے دخل ہونا پڑا ہے۔ بانک کریمہ بلوچ کا قاتل وہی ریاستی ادارے ہیں جن کو بلوچ سے زیادہ بلوچوں کی سرزمین عزیز ہے اور اِس کےلیے وہ بلوچ نسل کشی سے بھی نہیں کترا رہی ہے۔