وطن سے مکالمہ
تحریر: تنویر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میں اپنے کمرے میں بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا دسمبر کی شام شال کی یخ بستہ ہوائیں،گوریچ کی دل دہلا دینے والی آواز ، رات کے تقریباً 2 بجنے کو تھا۔
اچانک مجھے یوں لگا جیسے کمرے میں کوئی داخل ہوا، میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے ہمت نہیں ہورہی تھی کتاب سے نظر اٹھا کر اوپر دیکھنے کی خیر تھوڑی بہت ہمت کرکے کتاب بند کر دی اور نظر دوڑایا تو کیا دیکھتا ہوں ایک شخص میرے سامنے کھڑا ہے جس کے پیروں میں چپل تک نہیں کپڑے پھٹے ہوئے خون آلود
انتہائی عاجز شخص جو زنجیروں سے جھکڑا ہوا .
میرے بدن میں کپکپی سی طاری ہوگئی۔
مجھ میں اتنا ہمت باقی نہیں رہا کہ اس سے حال حوال کر سکوں
پر اس نے معاملے کی نزاکت جانی اور قریب آ کر بولا تم شاید مجھ سے ڈر رہے ہو میں نے اثبات میں سر ہلایا اس کی آواز درد بھری تھی خیر میں نے پوچھا کون ہو ؟ تمہاری یہ حالت کس نے کی تمہارے پیراہن پر یہ خون کیسا زنجیریں کیسی ؟ تم لگتے تو بڑے عاجز ہو ایسا کیا کر دیا جو یہ سزا ملی
جب میرے سوالات ختم ہوئے
تو تھوڑی دیر کے لیے کمرے میں خاموشی چھا گئی
اور پھر وہ گویا ہوا دراصل بات یہ ہے میں بے قصور ہوں میرا کوئی جرم نہیں
یہ جو میرے کپڑوں پر لگے خون کے دھبے دیکھ رہے ہو یہ میرے بیٹوں کے خون ہیں .
میں اصل میں بہت ہی امیر شخص ہوں میرے پاس نا سونے چاندی کی کمی ہے نا ہی پیسوں کے پر ان سب کے باوجود میرا یہ حال ہے
اس کے آنکھوں میں آنسو آگئے وہ بہت کچھ بولنا چارہا تھا مگر بول نہیں پا رہا تھا میں نے پانی دینے کی کوشش کی مگر انکار کر دیا اور پھر میں نے کہا اچھا اور یہ زنجیریں کیسی تو وہ زور زور سے رونے لگا میں شرمندہ ہوا کہ شاید مجھے یہ سوال کرنا ہی نہیں چاہئیے تھا۔
پھر وہ روتے ہوئے بولا مجھے اب میرے بچوں سے دور رکھا جارہا ہے میرے بچوں کو مار دیا جارہا ہے اور میں کچھ نہیں کرپارہا ہوں خدا را مجھے میرے بچوں سے دور نا کیا جائے
میں نے اس سے پوچھا تمارے بچوں کے نام کیا ہیں اور وہ کیوں کچھ کر کیوں نہیں رہیں تو وہ بولا کہ ہر بلوچستانی میرا لخت جگر ہے، تم بھی میرا بیٹا ہو میں حیران تھا کیا بول رہا ہے بس اتنا کہا اور بولا ابھی مجھے اجازت دو میں جارہا ہوں میں نے کہا رات کے اس وقت کہا جاؤ گے اور آپکا نام کیا ہے؟ اپنا نام نہیں بتایا تو وہ جاتے ہوئے بولا میرا نام بلوچستان ہے ، میں تمہارا وطن ہوں تم سب میرے بیٹے ہو یہ خون میرے شہید بیٹوں کے ہیں اور یہ زنجیریں گوادر میں لگے باڑ ہیں
یہ باڑ میرے بیٹے ہی نکال سکتے ہیں اگر ان میں اتّفاق ہو مگر افسوس اور پھر وہ غائب ہوگیا میں غش کھا کر زمین پہ گر پڑا میرے آنسو رُکنے کا نام نہیں لے رہے تھے یہ مجھ سے کیا گناہ ہوگیا۔
میں نے تو اپنی لمہ (ماں)وطن کو ہی نہیں پہچانا، وہ ماں جس نے مجھے سب کچھ دیا وہ ماں جس کے سینے پر میں کھیلتے کودتے جوان ہوا آج میں نے اس کو نہیں پہچانا۔
میں بھاگ کر دروازے سے باہر نکل گیا اسی آس میں کے میں اپنی وطن سے ملوں اس کے پاؤں پکڑ کر گڑگڑا کر معافی مانگوں لیکن دور دور تک کوئی نہ تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔