ملا عمر بلوچ کون تھے؟ – ٹی بی پی فیچر رپورٹ

4025

ملا عمر بلوچ کون تھے؟

دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ

مغربی اور مشرقی بلوچستان کے ایک متنازعہ کردار ملا عمر بلوچ کو 17 نومبر کو بلوچستان کے ضلع کیچ میں پاکستانی فورسز نے مشکوک انداز میں فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ ملا عمر جس پر بلوچ آزاد پسند پاکستانی فوج کے ایک کارندے اور مذہبی شدت پسند ہونے کا الزام عائد کرتے تھے اور متعدد بار انکی آپس میں جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں، دوسری جانب ملا عمر ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کرتے تھے کہ وہ بلوچ حریت پسند ہیں اور ایران کے خلاف بلوچوں کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ملا عمر کے نام سے شہرت رکھنے کے باوجود وہ اپنے نام کے ساتھ لفظ “ملا” کے سابقے کے بارے میں بتاتے کہ یہ محض عرفیت ہے، انکا مذہبی شدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔

ملا عمر کو 17 نومبر کو منگل کی شام گئے، بلوچستان کے ضلع کیچ میں پولیس نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔ اس واقعے میں ملا عمر کے دو بیٹے حسن اور حسین بھی پولیس کی گولیاں لگنے سے ہلاک ہوگئیں۔

ملا عمر کی ہلاکت کا واقعہ ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت کے پوش علاقے سیٹلائیٹ ٹاون میں تربت انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے بالکل قریب ہی ایف سی کی چیک پوسٹ سے چند قدم کے فاصلے پر پیش آیا۔ اس کے فوراً بعد ایف سی نے بھی وہیں آکر ملا عمر کی گاڑی کو گولیوں کا نشانہ بنایا، یوں پولیس اور ایف سی دونوں فورسز نے مشترکہ کاروائی میں ان کو ہلاک کردیا۔

علاقائی شاہدین کے مطابق شام سے پولیس نے سیٹلائیٹ ٹاون کے مختلف علاقوں میں گشت بڑھادی تھی اور کچھ اہم مقامات پر پوزیشن لے کر پولیس اور ایف سی کے اہلکار کھڑے تھے۔ علاقائی ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک خفیہ ڈیل کے تحت طویل عرصے سے مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ اداروں کا مہمان بن کر رہنے والے ملا عمر کو قتل کرنے کا باقاعدہ منصوبہ بنایا گیا تھا۔

انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق منگل کے روز ایک خفیہ ادارے نے ملا عمر کو دو مرتبہ طلب کیا تھا لیکن وہ پیش ہونے نہیں گئے۔ شام کو ایف سی نے بھی ان کو ہیڈکوارٹر تربت میں بلایا، مگر ملا نے جانے سے انکار کردیا تھا۔ ذرائع کے مطابق “ملا عمر کو اس کی شاید بھنک لگ چکی تھی کہ ان کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے اسی لیئے وہ ریاست کے مہمان ہونے کے باوجود حکم ٹالتے رہے۔”

ملا عمر کے قریبی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ شام گئے جب انہوں نے کچھ غلط محسوس کیا تو ایک گاڑی میں اپنے دونوں بیٹوں کو لے کر فرار ہونے کی کوشش کی چونکہ پولیس اور ایف سی ہر جگہ ان کے تعاقب کے لیے پہلے سے مورچہ زن تھی تو انہیں موقع پر ہی فائرنگ کرکے بیٹوں سمیت قتل کردیا گیا۔

ملا عمر کون تھے؟

آج سے چند سال قبل 2013 کی ایک صبح جونہی سورج رات کی تاریکی کا سینہ چیرنے کی کوشش میں تھی، تربت سے تقریباً 60 کلومیٹر مغرب کی جانب کلاھو نامی دیہات میں دھماکوں کی آوازوں نے علاقہ مکینوں کو پریشان کردیا۔ سورج نکلنے تک واضح ہوچکا تھا کہ ملا عمر کی رہائش گاہ پر بڑا حملہ کیا گیا ہے۔

دراصل ایرانی ڈرون نے انکے گھر کی شناخت کے بعد اسے نشانہ بنایا تھا، جس میں ان کی ایک کم سن بیٹی جانبحق ہوگئی تھی، مگر ملا عمر خود بچ گئے تھے۔

اس واقعے کے بعد وہ ریاستی اداروں کے مکمل تحفظ میں تربت کے پوش علاقے سیٹلائیٹ ٹاون میں منتقل ہوگئے اور قتل ہونے تک یہیں رہائش پذیر تھے۔

وہ اکثر اوقات یہاں ایک گاڑی میں اکیلے گھومتے، ان کے ساتھ کوئی محافظ نہیں ہوتا، ایک طرح سے وہ خود کو بالکل محفوظ سمجھتے تھے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہیں سے انہیں بلوچستان میں جاری آزادی کی تحریک کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق وہ ایک مضبوط نیٹ ورک چلاتے تھے، جس میں خفیہ اداروں کی تشکیل کردہ مقامی ڈیتھ اسکواڈز کو شامل کیا گیا تھا، جن کی فنڈنگ ملا عمر کی ذمہ داری تھی۔ اس کے اسکواڈ میں یاسر بہرام نامی شخص بھی شامل تھا، جو کھلم کھلا ضلع کیچ میں ڈیتھ اسکواڈ کی سربراہی کرتا ہے۔

کچھ سال قبل بلوچستان کے ایک دور افتادہ گاوؐں کہیرن نگور میں ملا عمر اور یاسر بہرام کے مبینہ ڈیتھ اسکواڈوں اور بلوچ مزاحمت کاروں کے بیچ شدید جھڑپیں ہوئی تھیں۔ دونوں جانب کئی گھنٹوں تک لڑائی کی خبر پورے بلوچستان میں پھیل گئی تھی۔ اگلے دن ایف سی نے تربت سے بھاری سیکیورٹی پہنچا کر دونوں کو حفاظت سے نکال دیا اور دونوں کو سیٹلائیٹ ٹاوؐن جیسے پوش اور قدرے محفوظ علاقے میں رہائش دے دیا۔

ملا عمر کہاں سے آئے؟

ملا عمر بنیادی طور پر مغربی (ایرانی) بلوچستان سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنی ریاست مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے وہ ایرانی حکومت کو کئی مقدمات میں مطلوب تھے۔ وہ ایران کے خلاف مزاحمت کرنے والے جیش العدل کے ایک اہم کمانڈر تھے۔ جیش العدل دعویٰ کرتی ہے کہ وہ شیعہ اکثریتی ملک میں سنی بلوچوں کے حقوق و آزادی کیلئے جدوجہد کررہی ہے۔ ایران کے خلاف مزاحمت کرنے والے بلوچ مزاحمتی تنظیمیں ہمیشہ مشرقی بلوچستان کو تاریخی طور پر ایک محفوظ جگہ تصور کرتے ہیں اور انہیں مبینہ طور پر پاکستان اور شیعہ مخالف قوتوں کی جانب سے حمایت ملتی ہے۔

ملا عمر نے اپنے ایران مخالف سرگرمیوں کا آغاز اس وقت کیا، جب انکے ایک بھائی کو ایرانی حکام نے پھانسی دی تھی۔ انہوں نے باقاعدہ اپنی مسلح کاروائیوں کا آغاز مولا بخش درخشاں عرف ملا ملوک کے سپاہ رسول اللہ سے کیا، 2006 میں ملا ملوک کا ایرانی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ملا عمر نے سپاہ رسول اللہ کی قیادت سنبھالی اور بعد ازاں وہ عبدالمالک ریکی کے جنداللہ کا حصہ بن گئے تھے۔ 2010 میں عبدالمالک ریکی کے پھانسی کے بعد جنداللہ انتشار کا شکار ہوگئی اور مختلف گروپوں میں بٹ گئی۔ ملا عمر جیش العدل کا حصہ بنے۔

حاجی حسن ایرانی، جن پر ممبئی حملوں میں ملوث ہونے اور اجمل قصاب کو انڈیا بھیجنے کا الزام عائد ہے، ملا عمر ان کے دست راست شمار ہوتے تھے۔ حاجی حسن ایرانی ایران کو کئی سالوں سے مطلوب ہیں، وہ طویل عرصے سے تربت میں رہائش پذیر ہیں، مگر ان کا اصل ٹھکانہ کراچی اور لاہور ہوتا ہے۔

معروف بھارتی صحافی ادتیا راج کول نے ملا عمر کے ہلاکت کے بعد ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ “بھارتی شہری کلبھوشن یادو کو اغواء کرکے پاکستانی فوج کے حوالے کرنے والے شخص ملا عمر ہی تھے۔”

ملا عمر کے قتل کے بابت ذرائع یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ایران اور پاکستان کے درمیاں کچھ روز قبل اعلیٰ سطحی ملاقات میں ایک دوسرے کو مطلوب ایسے ملزمان جو ایک دوسرے کے ہاں رہائش پذیر ہیں حوالگی یا مارنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ملا عمر کو پہلی فرصت میں ہلاک کرکے گویا پاکستان نے ایران کے ساتھ تعلقات بحالی کا سگنل دے دیا ہے۔