مشال خان کی ماں کو عدالتیں بھی انصاف نہ دے سکیں – محمد خان داؤد

156

مشال خان کی ماں کو عدالتیں بھی انصاف نہ دے سکیں

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

مشال کی ماں کی دید مشال کو دیکھنے کے لیے ایسے ہے جیسے سندھ کے صوفی دانشور ولی رام ولب نے اپنی آپ بیتی میں لکھا کہ
”جب وہ ساٹھ،ستر سال بعد اپنے جنم بھومی تھر گاڑی کی چھت پہ سوار ہوکر جا رہا تھا تو سخت گرمی میں تپتی دھوپ میں کھڑی لڑکی نے سوال کیا کہ
””تِراھ لاگی سی،
پانی ہوئے تو
پیوراؤ؟““
”پیاس لگی ہے
پانی ہو
تو پلاؤ؟“
ولی رام ولب لکھتے ہیں کہ
”پانی گاڑی کی ٹینکی میں بھی نہ تھا
میرے پاس بھی نہ تھا
لوگوں کے پاس بھی نہ تھا
تھر کے صحرا میں بھی نہ تھا
اور میں نے دیکھا کہ آکاش میں بھی نہ تھا“
زندگی گذرگئی بہت سی پیاس لگی۔ بہت سا پانی پیا، بہت سا مشروب پیا۔مہ کشوں کے ہاتھوں مہ پیا۔موکھی کے ہاتھوں متاروں کے ساتھ بیٹھ کر مہ پی
پر پیاس نہیں بجھتی تو نہیں بجھتی
اس تھری لڑکی کا سوال آج بھی اپنی تمام تر پیاسی شدت کے ساتھ موجود ہے کہ
””تِراھ لاگی سی،
پانی ہوئے تو
پیوراؤ؟!!““

آج مجھے ولی رام ولب کی یہ بات اس لیے یاد آئی ہے کہ انصاف کے علمبرداروں نے ایسا انصاف کیا ہے کہ صحرا تھر کی پیاس کیا بجھے گی وہ پیاس اور بڑھ گئی ہے اور ولی رام ولب جیسا صوفی دانشور جب آکاش کی طرف دیکھتا ہے تو زمیں،صحرا، کنوئیں، ٹینکیاں تو ٹینکیاں پر آکاش میں بھی پانی نہیں اور یہ سوال آج بھی تھر صحر اسے لیکر انصاف کے ایوانوں میں رینگتا نظر آتا ہے کہ
””تِراھ لاگی سی،
پانی ہوئے تو
پیوراؤ؟!!““

اور ولی رام ولب جیسا سیدھا لوح انسان اگر کوئی جواب نہ بھی دے اور کوئی لب کشائی نہ بھی کرے جب بھی اسے یہ لکھنا اور کہنا ہی پڑتا ہے کہ
”پانی گاڑی کی ٹینکی میں بھی نہ تھا
میرے پاس بھی نہ تھا
لوگوں کے پاس بھی نہ تھا
تھر کے صحرا میں بھی نہ تھا
اور میں نے دیکھا کہ آکاش میں بھی نہ تھا“
اور وہ پانی کیا ہے جو صحرائے تھر سے لیکر مردان کی پہاڑیوں تک،کیٹی کے بندر سے لیکراقتدرا کے ایوانوں تک اور انصاف کے ایوانوں تک کہیں دستیاب نہیں جن انصاف کے ایوانوں کے چکر لگا لگا کر نقیب اللہ کا بابا جہاں سے گزر گیا اور اب اقبال لالا حیران ہے کہ وہ کیا کرے؟

جو کام ہجوم منتشر نے کرنا تھا وہ کردیا
جو کام قبر کی مٹی نے کرنا تھا وہ بھی ہوگیا
جو کام ایک ماں کے کرنے کا تھا وہ بھی ہو گیا
جس میں ایک ماں نے کہا تھا کہ(جب اس کے ہاتھوں کو چوماتو اس کے ہاتھ کی سبھی انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں)
جو کام بہنوں نے کرنا تھا وہ بھی ہوگیا
جو کام زمانے نے کرنا تھا وہ بھی ہوگیا
جو کام اقبال لالا نے کرنا تھا وہ بھی ہوگیا جس میں وہ ہر روز کوئی شعر کی ناتمام سطر لکھتے ہیں
اور بہت سوچتے ہیں اور آنکھیں نمک کے بوجھ سے جھک جاتی ہیں
اقبال لالا کوئی سدھارتھ نہیں پر وہ سدھارتھ کی طرح باپ ضرور ہے وہ جانتا ہے کہ ماؤں کے دلوں کو قرار نہیں دلایا جا سکتا اور خاص کر مائیں بھی وہ جن کا محبتوں سے بھرا بیٹا ہجوم منتشر کا شکار ہوا ہو!
پر پھر بھی اقبال لالا سدھارتھ بنا ہوا ہے
باوقار،خاموش
جو کام انصاف کے ایوانوں نے کرنا تھا وہ بھی ہو گیا
اب جو کام انصاف کے ایوانوں سے بھی آگے کا ہے وہ کون کرے؟
یہی سوال نقیب اللہ کے بابا کا تھا
جو اب نہیں رہے، پر سوال اب بھی باقی ہے
وہ چیف آف آرمی کو بھی اپنا وعدہ یاد دلا تے رہے تھے اور انصاف نہ ہونے پر وہ خود سوزی کرنے پر تُلے ہو ئے تھے
اور اب یہی سوال اس ماں کا ہے جس ماں کا بیٹاہجوم کی نظر ہوا
جس کا چہرہ مسخ کیا گیا۔
جس کے نازک جسم پر لوہے کی سلاخیں اور ڈنڈے برسائے گئے
جس کے جسم کو بھا ری بلاکوں سے روندا گیا
جس کو بہ زدو کوب گیا گیا
جس کو گولی ماری گئی
پھراسے ایسی بے رحمی سے جلا دیا گیا ایسے تو ہندو اپنی ارتھیاں بھی نہیں جلاتے۔

بھلے وہ عدالتیں انصاف کے تقاضے پورے نہ کریں، بھلے وہ عدالتیں ہجوم ِ منتشر کو پھانسی نہ دیں، بھلے وہ عدالتیں سب مجرم کو با عزت برے کر دیں،بھلے وہ عدالتیں سب مجرموں کو معصوم بنا کر پیش کریں،بھلے وہ عدالتیں قاتلوں کی منصفی چاہیے اور وہ کچھ کریں جس سے انصاف بھی شرما جائے۔بھلے وہ عدالتیں ان مجرموں کوایسے پیش کریں جیسے یہ وہ مجرم تھے ہی نہیں جن پر جنوں سوار تھا اور انہوں نے ایک ماں کا ہنستا کھیلتا گھر ہی نہیں اُجاڑا پر اس ماں کی آنکھوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خون سے بھر دیا۔

بھلے وہ عدالتیں سب مجرموں کو با ری با ری ضمانتیں دے اور وہ مجرم جب جیل سے رہا ہوں تو یہ بے شرم زمانہ ان کا ایسا استقبال کرے جیسے وہ خدا کے غازی اور پر اسرار بندے ہوں
بھلے وہ عدالت سب مجرموں کی سزاؤں میں تخفیف کر دے
بھلے وہ عدالت سب مجرموں کی پھانسی کی سزاؤں کو عمر قید میں بدل سے
پر اس سے کیا ہوتا ہے
کیا ہوتا ہے؟
اس پر اس ماں کو کیا ہوتا ہے جس کا لال لہوجیسا بیٹا لہو میں نہلایا دیا گیا!
اس ماں کے بیٹے کو جلا دیا گیا
اس ماں کے بیٹے کو پتھروں اور لوہی سلاخوں کے منھ میں دیا گیا
جس ماں کے بیٹے کو گولی مار دی گئی
کیا یہ عدالتیں اس ماں کے بیٹے کو واپس لا سکتی ہیں؟
اس لیے جب تک اس رو تی ماتم کرتی ماں سے انصاف نہیں ہوگا
اس ماں کا پیاس بھرا سوال وہیں پر ہی رہے گا کہ
””تِراھ لاگی سی،
پانی ہوئے تو
پیوراؤ؟!!““
”پیاس لگی ہے
پانی ہو
تو پلاؤ؟!!“
معلوم نہیں مشال کی ماں کوانصاف کا پانی مل بھی پائیگا کہ نہیں؟
یا یہ پیاس ایسی ہی باقی رہے گی
اور کوئی ولی رام ولب جیسا صوفی اس اداس ماں کو دیکھ کر کہے گا کہ
”پانی گاڑی کی ٹینکی میں بھی نہ تھا
میرے پاس بھی نہ تھا
لوگوں کے پاس بھی نہ تھا
تھر کے صحرا میں بھی نہ تھا
اور میں نے دیکھا کہ آکاش میں بھی نہ تھا!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں