سندھ کی ماؤں اور بیٹیوں کو دردوں بھرا سفر مت کراؤ
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
سندھ کے قوم پرستوں کو سندھ کے مقبوضہ جزائر اور مقبوضہ پہاڑ تو نظر آتے ہیں پر ان قوم پرست لیڈروں کو وہ مائیں، بہنیں، بیٹیاں نظر نہیں آرہیں جو اس اکیسویں صدی میں بھی سسئی بنی ہوئی ہیں اور وہ اپنے چھوٹے چھوٹے قدموں سے لمبے سفر کو ہر دن تھوڑا تھوڑا پیچھے چھوڑتی آگے بڑھ رہی ہیں۔
اگر سندھ کے قومی لیڈروں کو وہ مائیں، بہنیں، بیٹیاں نظر آتیں تو آج وہ مائیں، بہنیں، بیٹیاں اس کڑکتی سردی میں اپنے پیر یوں زخمی کرکے اس پنڈی تک نہ جاتیں جیسے تھر کی مائیں اپنے بیمار بچے آدھی رات سوتے لوگوں کو بہت پیچھے چھوڑے مٹھی اس امید پر لے جا تی رہیں ہیں کہ شاید سانول بچ جائے۔
سانول کے بچ جانے کی تھوڑی بہت امید بھی ہوتی ہے، پر پنڈی کے سفر میں تو یہ بھی امید نہیں کہ جب یہ طویل سفر پنڈی تک پہنچ کر اختتام پذیر ہوگا تو کیا تب شازیہ کے آنسو تھم جائیں گے۔
نہیں معلوم کہ وہ سفر پورا بھی ہوگا کہ نہیں؟
نہیں معلوم کہ بندوق بردار ان مسافروں کو وہاں تک پہنچنے بھی دیں گے یا نہیں جہاں یار تو نہیں پر یار کے ملنے کی آس ضرور ہے
یہ بھی نہیں معلوم کہ ان اداس مسافروں کا وہ سفر پنڈی تک کب پہنچ پائیگا، جبکہ گذشتہ کئی دنوں سے ابھی تک یہ اداس مسافر لاڑ کی نمکین مٹی سے ہی گزر رہے ہیں۔
یہ بھی نہیں معلوم کہ جب یہ مسافر پنڈی کے کھلے دروازوں سے شہر میں داخل ہونگے تو بند دروازوں کے در کھلیں گے یا نہیں۔
یہ بھی نہیں معلوم کہ ان اداس مسافروں کے رنجیدہ دل خوش ہونگے کہ نہیں
ہم اور سندھ کے قوم پرست لیڈر بس اس سفر کو دیکھ سکتے ہیں پر اس سفر میں شامل سفر نہیں اور ہم یہ نہیں جان پائیں گے کہ تنگ جوتے سفر میں انسان کے پیروں کو کیسے کھا جاتے ہیں، سفر میں یہ بند جوتے انسانی پیر کیا پر انسانی روح تک کو کھا جاتے ہیں۔
ہم تو اس سفر کو محسوس بھی نہیں کرسکتے
ہم اس سفر کو سوشل میڈیا کی معرفت میں بس دیکھ سکتے ہیں
اس سفر کو محسوس نہیں کرسکتے کہ اس سفر میں کیسے کیسے گھاؤ ہیں جو انسانی وجود کو کھا رہے ہیں
جب ہم اس سفر کو محسوس ہی نہیں کرسکتے، تو اس درد سے کیسے واقف ہو سکتے ہیں جس درد سے وہ مسافر گزر رہے ہیں، جو اس سفر میں شامل ہیں، جن مسافروں کے رات دن دردوں کی نظر ہو رہے ہیں۔ جن کی تمام صبحیں اور تمام شامیں ماتم جیسی ہیں۔ جو خود نوحہ بن چکے ہیں جن پر لکھنے والے کوئی مرثیہ نہیں لکھ رہے جن کے دردوں کو قومی میڈیا میں نہیں دکھایا جارہا جن کے زخمی پیروں اور اداس نینوں کو قومی پرنٹ میڈیا میں نہیں چھاپا جارہا۔ جس سفر میں بس وہ بہنیں شامل نہیں جن کے جوان بھائی رات کی تاریکی میں اُٹھا لیے گئے، پر اس تنگ دل گلی اور پریشان حال سفر میں وہ بوڑھی مائیں بھی شامل ہیں، جو کبھی اپنے گھر سے کسی طبیب کے پاس بھی نہیں گئیں پر آج اپنے لختِ جگروں کے لیے مسافر بنی ہیں۔
اگر سندھ کے قوم پرست لیڈر اس معاملے پر شروع سے ہی آواز اُٹھاتے تو آج یہ مائیں یوں نہ رُلتیں!
سندھ کے قوم پرست لیڈر مفاد پرست ہیں اور سندھ نے ان کو بری طرح رجیکٹ کردیا ہے۔
یہ سندھ کے ان ایشوز پر تو بات کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں، دھرنے اور ریلیاں دیتے ہیں، جن میں ان کی واہ واہ ہو اور میڈیا کوریج ملے پر یہ مفاد پرست سندھ کے ان ایشوز پر بات نہیں کرتے، جو ایشوز سندھ کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔
یہ مفاد پرست کارونجھر کی کٹتی کور پر بات کریں گے
یہ مفاد پرست سندھ کے مقبوضہ جزائر پر بات کریں گے
کیوںکہ یہ اس وقت سندھ کے ہاٹ اشوز ہیں اور ان ایشوز نے سندھ کی مردہ قوم پرستانہ سیاست میں جان ڈال دی ہے۔ پر یہ مفاد پرست ٹولہ سندھ کے گوڑانو ڈیم پر بات نہیں کریں گے، جس سے تھر زہر آلود ہو رہا ہے، یہ ٹولاتھر میں مرتے بچوں پر اور مرتے موروں پر بات نہیں کریگا
یہ مفاد پرست ٹولا تھر کی زمیں پر بڑھتی شدت پسندی پہ بات نہیں کریگا ؎
یہ مفاد پرست ٹولا سندھ میں ہندو معصوم لڑکیوں کے اغوا اور جبری مذہب تبدیلی پہ بات نہیں کرتا۔
یہ مفاد پرست ٹولا بحریہ کی لائی گئی تباہی اور قبضہ گیریت پہ بات نہیں کرتا
اور یہ مفاد پرست ٹولا اس مسئلے پر بات نہیں کرتا، جس مسئلے کو لیکر سندھ کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں مسافر بنی ہیں اور ان کے زخمی پیر اس بات کے ساکھی ہیں کہ وہ اس آتی سردی میں کس تکلیف اور درد سے گزر رہی ہیں۔
سندھ کا یہ قوم پرستانہ ٹولا ہر وہ بات کریگا جس سے بڑے صاحب ناراض نہ ہو جائیں۔
پر یہ مفاد پرست ٹولا اپنی زباں پر نہ تو بحریہ کی قبضہ گیریت کا نام لیتا ہے
اور نہ ان گم شدہ انسانوں کو جن کی مائیں بہت بوڑھی ہیں، پر مسافربنی ہوئی ہیں.
یہ سندھ کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
پر سندھ نہیں ڈوبے گا کیوںکہ سندھ میں اپنے لیڈروں کی طرح شرم بھی نہیں
سندھ کی مظلوم بیٹیاں اور مائیں پنڈی تک مشکل ترین سفر کر بھی رہے ہیں اور اپنے زخمی پیروں پر پٹیاں بھی باندھ رہے ہیں۔
یہ بات اگر زخمی پیروں تک ہو تی تو ٹھیک تھی پر ان کے زخمی دلوں کی رفو گیری کون کریگا؟
ان کے زخمی پیر تو کسی اخبار میں بھی نہیں چھپ رہے
ان کے گیلے گیلے نین تو کسی میڈیا کے کیمرے کی زینت بھی نہیں بن رہے
تو کون جانے کہ مسافروں کو درد کیا ہوتا ہے
ویسے ہی سفر، درد ہوتا ہے پر جس سفر کی یاوری ہی درد کر رہا ہو تو اس سفر میں کیا ہوگا؟
سندھ کے قوم پرست ہر ہفتے میں کراچی میں تماشہ کرنے آجاتے ہیں
ناچتے ہیں، گاتے ہیں، ہاتھوں میں بینر اور پمفلیٹ لیے
”نا منظور نا منظور نا منظور!“ کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں
پر ان کی بولتی زبانیں یہ نعرہ نہیں لگاتیں کہ
”سندھ کی ماؤں اور بیٹوں کو دردوں بھرا سفر مت کراؤ!“
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں