گوریلا جنگ مضبوط اعصاب سے لڑی جاتی ہے – ڈاکٹر اللہ نذر

475

بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا ہے کہ ہماری دشمن صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ ہمارا ایک بزدل دشمن ہے۔ وہ نہ اپنی طاقت سے آشنا ہے اور نہ ہماری۔ ہم اپنی اور اپنے دشمن کو طاقت کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ جنگیں صرف ہتھیار سے نہیں بلکہ مضبوط اعصاب، دماغ اور ذہانت سے جیتی جاتی ہیں۔ یہ ایک تھکا دینے والی جنگ ہے۔ اس جنگ میں بلوچ قوم قدرتی جنگی زون (Natural War Zone) میں ہے۔ اس لئے بلوچ تھکنے والا نہیں مگر پنجابی فوج کا تھک جانا ان کا مقدر ہے۔ بلوچ قوم اس جنگ کو عقل و فہم سے جیت جائیگی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے تاریخ ساز جدوجہد کرنے والے بنگالیوں کو پنجابی ریاست نے اپنے برابر تو کجا انسان تک نہیں سمجھا۔ ان کی عددی اکثریت کو اقلیت کے برابر قرار دے کر ان پر حکمرانی کی۔ لیکن جب انہوں نے پاکستان کی اصلیت کا ادراک کیا اور نجات کا راستہ اپنایا تو نام نہاد مومن فوج بہادر بنگالی قوم کے سامنے جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا آج ہم گوریلا جنگ لڑرہے ہیں۔ بہت سے نام نہاد قوم پرست ہماری جنگی طرز کو غیر مفید قرار دیکر عوام کو بددل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کی طرح انہیں بھی اپنا مستقبل اور انجام تاریک نظر آرہا ہے، کیونکہ ہمیں پاکستان کے مقابلے میں کئی حوالوں سے برتری حاصل ہے۔ بلوچستان کی جغرافیہ گوریلا جنگ کے لیے جنت سے کم نہیں۔ گوریلا جنگجو عوامی سمندر میں مچھلی کی مانند ہوتی ہیں۔ بلوچ گوریلاؤں کو بیس سالوں تک بلوچ عوامی سمندر اور بلوچستان کی بے مثال جغرافیہ نے اپنی آغوش میں پناہ دی ہے۔ بربریت کے تمام حربے آزمانے کے باوجود پاکستان بلوچ گوریلاؤں کے لیے عوامی مہر و محبت رتی بھر کم نہیں کرسکا ہے۔

انہوں نے کہا گوریلا جنگ میں عددی اکثریت اور جدید اسلحے کی تقابل وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں گوریلا جنگ کی تاریخ معلوم نہیں۔ گوریلا فوج عددی اعتبار میں چھوٹی، اسلحہ کے اعتبار سے کمزور، مگر حرکت، طاقت، فہم و فراصت اور اعصابی مضبوطی سے کسی بھی بڑی طاقت کو ناکوں چنے چبوا سکتا ہے۔ بلوچ تاریخ اپنی جگہ، صرف بیس سالہ تجربہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان بلوچ رورل اور اربن وارفیئر کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ آج بھی ہزاروں بلوچ جنگجو پہاڑوں میں موجود ہیں اور اندھیری راتوں کو چیتے کی نظر لے کر ناگہانی آفت کی طرح دشمن پر ہلہ بول دیتے ہیں۔ جبکہ شہروں میں تربیت یافتہ گوریلا، سلیپر سیلز اور ریزور فورس کی بلوچ قوم میں کوئی کمی نہیں ہے۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ہمسایہ ممالک اور عالمی قوتوں کو بلوچ قومی تحریک کی حمایت کرکے اس کے سیاسی محاذ اورمسلح بازو کی مدد و اعانت کرنا چاہیے۔ کیونکہ آزاد بلوچستان کی جغرافیہ، سیکولر تشخص کے حامل قوم اور بیش قیمت وسائل نہ صرف خطہ بلکہ دنیا کے امن و سلامتی اور ترقی و خوشحالی میں کلیدی کردار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔