لیاری سٹریٹ کرائم سے سٹریٹ لائبریری تک
تحریر: نادر انور بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مجھے لیاری کے جغرافیہ اور تاریخ کے بارے میں اتنا زیادہ علم نہیں، جب میں نے ہوش سنبھالا تو لیاری گینگسٹر، جرائم پیشہ عناصر کے مسکن، سٹریٹ کرائم، قتل، ڈکیتی اور بوری بند لاشیں ، اور موت کے فرشتے Ak-47اور 9M لے کے ہمیشہ بدقسمت لیاری کی تنگ و تاریک گلیوں میں رقص کناں تھے. اس سے پہلے لیاری فٹبالرز، ادیب اور دانشور لوگوں کی جنت ہوا کرتا تھا، لیکن سیاست اور طاقت کے کھیل نے اسے دانشور ادیب اور اتھلیٹ کے لیے دوزخ بناڈالا.
لیاری کے گلیوں میں بارود کے دُھند چھاگئے، لیاری کی گلیاں خون کے آبشار بن گئے، لیاری کی امن کا فاختہ مرچکی تھی، وہ لیاری کبھی کراچی کا رونق ہوا کرتا تھا، وہ غریب پرور عوام کیلئے روزگار کا بہترین مرکز ہوا کرتا تھا، اسے ویران بناڈالا. فٹبال اور دیگر کھیلوں کی جگہ موت کے کھیل نے لے لی، دو ٹیم کے بجائے دو گینگ کے مقابلے شروع ہوگئے، کھلاڑی نہیں گینگسٹر کمانڈوز نے میدان سنبھالی.
کبھی لیاری میں ناکو فیض محمد کے سریلے گیت ہوا کرتے تھے، اسے گولیوں کے شور میں بدل ڈالا گیا. لیاری کی گلیاں سڑکیں اپنوں کے لیے بھی اجنبی بن گئے کیونکہ لیاری کے بدقسمتی کے رشتے بلوچستان سے ملےتھے. لیاری کے قسمت کے فیصلے اب اوروں کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی.
جب بھی لیمارکیٹ آٹھ چوک میں داخل ہوتا تو چہرے پر خوف کے تاثرات نمودار ہوتے. لیاری جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہ کی طورپر جانا گیا، کس طرح کی تکلیفیں لیاری کے عوام نے جھیلیں اس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا.
لیکن اب لیاری کی رونقیں دوبارہ لوٹ آگئیں ہیں، خدارا کسی کی نظر نہ لگ جائے، اب لیاری کراچی کا وہ واحد علاقہ جہاں اسٹریٹ لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، لیاری کتاب گھر بن گئے لیاری کی سڑکیں جو کبھی خون کے آبشار تھے، اب وہ درسگاہیں بن گئے. وہ ماضی کی لیاری واپس لوٹ آگئی. وہ جمود ٹوٹ گیا جو لیاری کے ادبی، سیاسی اور سماجی رشتوں کو منجمد کربنا ڈالا.
اب لیاری واپس ادیبوں، دانشوروں اور اتھلیٹوں کے جنت بن گئے، ہاں غُربت اور پسماندگی لیاری کو ورثے میں ملی ہے. لیکن ہمت حوصلے ادب، فن اور کھیل سے دوستی لیاری کے رگوں میں صدیوں سے پیوست ہے.
اب لیاری کی خوبصورت شامیں فٹبال میچ اور دیگر ادبی اور سماجی تقریبات کی زینتِ ہیں، لیاری کے فٹبال گراؤنڈ فن اور ادب کے میدان واپس آباد ہورہے ہیں.
اب شام کو گبول پارک پر لوگوں کی جم غفیر اور فٹبال میچ کو دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ وہی لیاری ہے جہاں خوف کے بادل چھائے ہوئے تھے. ایسا لگتا ہے وقت نے لیاری کو ایک بار پھر دلہن بنادیا، خدا اس کی خوشیوں کو سلامت رکھے.
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ لیاری کے غریب باسی ہمیشہ سے فن، ادب اور اسپورٹس سے لگاؤ رکھتے تھے لیاری کو اندھیرے میں دھکیلنے کی ذمہ دار وہ سیاسی اور سرمایہ دارانہ نظام تھی جس سے کئی جانیں چلی گئیں اور کتنے گھر اجڑ گئے.
خدا ان آنکھوں کو اندھیرے میں رکھے، جو اب بھی اسطرح کے خیال دل میں رکھتے ہیں اور ان کی آنکھیں اب بھی لیاری پر جمی ہوئی ہیں. لیاری میں امن و امان کی قیام کسی پارٹی یا سیاسی عمل کے ذریعے نہیں آیا تھا بلکہ لیاری کے عوام کی مستقل مزاجی سے آیا تھا، کیونکہ لیاری کے امن و امان کو تہہ وبالا کرنے والے بھی سیاست دان اور ان کے گماشتہ تھے.
لیاری اب قتل گاہ نہیں، امید کا سایہ ہے، امن کی جگہ ہے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔