بلوچ طلباء کا تعلیم کیلئے مارچ
ٹی بی پی اداریہ
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے سنہ 2009 میں بہت اہتمام کے ساتھ بلوچستان کی “احساس محرومیوں” کو دور کرنے کیلئے “آغاز حقوق بلوچستان” پیکج کا اعلان کیا تھا۔ اس پیکج میں جنگ زدہ خطے بلوچستان کیلئے سیاسی، معاشی، انتظامی اور تعلیمی منصوبے شامل تھے۔ ناقدین نے اس پیکج کو ریاست کا ایک اور “کاونٹر انسرجنسی” حکمت عملی قراردیتے ہوئے، اس بات کی پیشن گوئی کردی تھی کہ یہ بھی اسی طرز کے دوسرے پالیسیوں کی طرح ناکام ہوجائیگی۔ اس پیکج میں بہت سے وعدوں کے ساتھ یہ بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ بلوچستان کے طالبعلموں کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے اسکالرشپس میں ایک خاص کوٹہ دیا جائے گا، جس کے تحت وہ علاقائی اور بیرون ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرسکیں گے۔
اس وعدے کو عملی طور پر نافذ کرنے میں مزید تین سال لگے اور سنہ 2012 میں رسمی طور پر اسکالر شپس کا اعلان کیا گیا، اور پنجاب کے یونیورسٹیوں کو یہ احکامات جاری کیئے گئے کہ وہ بلوچ طلباء کیلئے نشستیں مختص کریں۔ ابتدائی طور پر ان سیٹوں کی تعداد 600 تھی، لیکن 2013 میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے مابین ملاقات میں انہیں بڑھا دیا گیا۔ شرائط آسان تھے کہ کوئی بھی بلوچ طالبعلم اگر پنجاب کے کسی یونیورسٹی میں اوپن میرٹ پر سیٹ حاصل کرتا ہے تو اس سے کوئی فیس بشمول ہاسٹل کے اخراجات وصول نہیں کیئے جائیں گے۔
یہ منصوبہ بلوچستان کے طالبعلموں میں کافی مقبول ہوا، جن کے پاس بلوچستان میں معیاری تعلیم حاصل کرنے کیلئے انتخاب نا ہونے کے برابر ہیں۔ ہزاروں طالبعلموں نے سخت محنت کے بعد پنجاب کے مختلف یونیورسٹیوں میں داخلے حاصل کیئے، لیکن دوسرے منصوبوں کی طرح اس منصوبے کی زندگی بھی مختصر نکلی۔
گذشتہ دو سالوں کے دوران مختلف طریقوں سے ان طلباء کو حاصل سہولیات اور وظائف میں کمی لائی جارہی ہے۔ ابتدائی طور پر ہاسٹل میں مفت رہائش کی سہولت ختم کرکے، انہیں حکم دیا گیا کہ تمام طلبا ہاسٹل فیس جمع کریں۔ تاہم بہاوالدین ذکریا یونیورسٹی کی انتظامیہ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ اعلان کرچکی ہے کہ 2020 کے داخلہ سال سے بلوچ طلباء کیلئے تمام اسکالر شپس کا خاتمہ کیا جائے گا۔ یونیورسٹی انتظامیہ اسکی وجہ حکومت پنجاب و بلوچستان کی جانب سے فنڈز کی بندش بتاتی ہے، جبکہ متذکرہ دونوں حکومتیں ایک دوسرے پر الزام دھر رہے ہیں۔
ان یونیورسٹیوں کے بلوچ اور پشتون طلباء گذشتہ دو ماہ سے لگاتار سراپا احتجاج ہیں۔ احتجاج کے پہلے مرحلے میں ان طلباء نے بہاوالدین یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک احتجاجی کیمپ قائم کیا، جو ایک ماہ سے زائد عرصے تک قائم رہا۔ احتجاج کے باوجود مطالبات پورے نا ہونے کی وجہ سے ان طالبعلموں نے اب 800 کلومیٹر طویل لانگ مارچ شروع کیا ہوا ہے، جو ملتان سے لاھور کی جانب گامزن ہے، جس کا منزل پاکستان کا دارلحکومت اسلام آباد ہے۔
احتجاج کرنے والے بلوچ طالبعلموں کا الزام ہے کہ اسکالرشپس کا خاتمہ اس نسلی امتیازی سلوک کا تسلسل ہے، جسکا انہیں پنجاب میں سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ان الزامات میں وزن بھی ہے کیونکہ پنجاب یونیورسٹی، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، بہاوالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان وغیرہ میں زیر تعلیم بلوچ طلباء مختلف اوقات میں پاکستان کے وفاقی جماعتوں کے طلباٗ ونگز کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
ان اسکالرشپس کو دوبارہ بحال کرنے کی فالفور ضرورت ہے تاکہ دنیا کے پسماندہ ترین خطوں میں سے ایک بلوچستان کے طالبعلم معیاری تعلیم حاصل کرسکیں اور اپنے خطے کی ترقی و خوشحالی میں کردار ادا کرسکیں۔ یہ بہت بڑا مطالبہ نہیں اگر اس امر پر غور کیا جائے کہ پنجاب کی فیکٹریاں بلوچستان کے وسائل سے چلتی ہیں اور وہاں کی ترقی بلوچستان کے معدنیات کی مرہون منت ہے۔ احتجاج پر مجبور طالبعلم محض تعلیم پر حق چاہتے ہیں، انہیں امتیازی سلوک کا سامنا نہیں ہونا چاہیئے۔