ہم غمزدہ ہیں لائیں کہاں سے خوشی کے گیت
تحریر: عدیل حیات بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میں نے خود سے یہ عہد کیا تھا کہ کچھ بھی ہو اب قلم نہیں اٹھاوں گا، اس اندھے بہرے اور گُنگے معاشرے میں قلم کی زبان سننے والا کوئی نہیں، سننا تو دور یہاں قلم کار ہی لکھتے لکھتے لاپتہ ہوجاتے ہیں اور پیچھے رہ جاتے ہیں گھر والے قیامت ان پہ آن پڑھتی ہے۔
بقول شاعر
اٹھالیے گئے وہ جو اٹھارہے تھے سوال
مگر سوال تو اب تک وہیں پڑا ہوا ہے۔
اس وجہ سے جذباتی ہوکر قلم نہ اٹھانے کا عہد کیا تھا۔ لیکن شُومیِ قسمت کہ اندر کا انسان ابھی تک نہیں مرا اور کہتا رہتا ہے کہ قلم اٹھاؤ اور لکھتے جاؤ الفاظ خود آتے جائینگے۔
غالب کہتا ہے۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
اب آتے ہیں اپنے موضوع پہ، موضوع کونسا؟ وہی بلوچ، وہی لاپتہ افراد، وہی قتل، وہی عذاب، ان کے علاوہ اور کوئی موضوع ذہن میں آیا ہی نہیں۔۔۔۔
بہر حال بلوچ کی زندگی انہی چند درد سے بھرے چیزوں کے چکر لگاتی ہے، ایک ختم تو دوسرا شروع، ٹھیک اسی طرح جس طرح زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے۔۔۔
لاپتہ افراد کے لواحقین کا نوحہ و فریاد سے بھری دل کو چیر دینے والی ویڈیوز تو بہت دیکھی ہیں، کوئی اپنے بھائی کے لئے رو رہی ہوتی ہے تو کوئی اپنے والد کے لئے کوئی بیٹے کے درد میں آنسو بہاتی ہے تو کوئی چچا کیلئے، کوئی حسیبہ ہے تو کوئی مہلب و سمی، کوئی ماہرنگ ہے تو کوئی ھانی سب کے درد مشترک ہیں اور سب کو دیکھ کر انسان اپنے ہستی، اپنے تہذیب پہ شک کرنے پہ مجبور ہوتا ہے کہ انسانیت کہاں ہے؟ اور کونسی تہذیب ہے یہ؟ اور بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جو دیگر معدنیات کے علاوہ انسانی لاش بھی اگلتی ہے۔
یہ سب چیزیں ویڈیوز کی صورت میں دیکھنے کہ بعد یہی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت قریب ہے شاید۔۔۔
آج ٹھیک وہی منظر میں نے دیکھا لیکن موبائل کے ذریعے نہیں وہی اپنی آنکھوں کے سامنے اور دیکھا کہ کتنا بے بس ہے بلوچ۔
ایک بچی ماہزیب بلوچ عمر تقریباً ١٢ سال ہوگی، وہ لاپتہ راشد حُسین کی بھتیجی ہے، وہ مطالبہ کر رہی تھی کہ میرے چچا نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو اسے عدالت میں پیش کریں، آپ کے اپنے بنائے ہوئے قانون کے مطابق سزا دے دیں۔
راشد حسین کو دبئی حکومت کی جانب سے پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں دیا گیا تھا لیکن اب ماہزیب کے مطابق دبئی کہتا ہے کہ ہمارے پاس نہیں اور پاکستانی ادارے کہتے ہیں ہمیں علم نہیں۔
١٢ سالہ گودی ماہزیب یہ کہتے ہوئے رو پڑی کہ میں ایک بلوچ ہوں، میں اپنے چچا کو بازیاب کرکے رہوں گی، میں دبئی حکام پہ اور پاکستانی اداروں پہ کیس کروں گی، یہ کہتے ہوئے اس بچی کے آنسو ایسے گررہے تھے جیسے آسمان رورہا ہو” روتے روتے وہ بچی بے ہوش ہوگئی”’
بانُک تمہیں کون سمجھائے کہ تم بلوچ ہو یہی تو جرم ہے تمہارا ورنہ یہ عمر پریس کلب کا نہیں کھیل کود اور پڑھائی کا ہے۔، اس بچی کو دیکھ کے یوں لگا کہ قیامت تو آچکی ہے دجّال بھی آچکا ہے لیکن عیسیٰ اور مہدی اب تک نہ جانے کس انتظار میں ہیں کہ نہیں آئے۔۔۔
دوست نے پوچھا کہ کیا ہر وقت انہیں دیکھو روتے رہتے ہیں اور کسی چیز پہ کبھی بات کر ہی نہیں سکتے، زندگی میں محبت، پیار نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے بس نوحہ ہی زندگی نہیں۔
میں نے کہا بقول ساحر
ہم غمزدہ ہیں لائیں کہاں سے خوشی کے گیت
دینگے وہی جو پائینگے اس زندگی سے ہم
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔