کمانڈر مُسلم جان عرف شہمیر – شئے رحمت بلوچ

888

کمانڈر مُسلم جان عرف شہمیر

تحریر: شئے رحمت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سوال آتا ہے کہ مُسلم نے کیوں مزاحمت کی ؟ سوال آتا ہے مسُلم کو کس چیز کی کمی تھی؟ سوال آتا ہے کیا اس نے شہیک اور ذاکر کا بدلہ لینے بندوق پکڑا تھا ؟ سوال آتا ہے وجہ کیا تھا؟ ہر کسی کے ذہن میں یہی سوال آتا ہے کہ مُسلم نے کیوں جنگ لڑا؟ مُسلم کون تھے؟ آجاؤ میں آپ کو بتاؤن کہ مُسلم نے کیوں مزاحمت کی، آجاؤ مُسلم کے بارے میں آپ کو بتاؤں جس کو میں جانتا ہوں، مسلم جس سے میں واقف ہوں۔ شہید مسلم کو پتہ تھا کہ اس جنگ کا نتیجہ موت ہے، جو بھی جنگ کا حصہ بنتا ہے، اُن کو ایک دن ضرور جام شہادت نوش کرنا ہی پڑتا ہے، ان کو پتہ تھا کہ موت اور زندگی دونوں ہی فرض ہیں، جو اس دنیا میں آتا ہے ، ایک دن ضرور کوچ کرکے جانا ہی پڑتا ہے۔

شہید مسلم جان مشکے کے مقام میہی میں محمد حسین کے گھر میں جنم لیتا ہے، اپنا ابتدائی تعلیم اپنے ہی آبائی علاقہ میہی میں شروع کرتا ہے، میہی میں ایک ہی پرائمری اسکول تھا ، جس میں شہید نے پانچویں کلاس تک پڑھا ، پھر اسُکے بعد جیبری کے اسکول میں اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھا ، شہید مسلم نے جیبری کے اسکول سے میٹرک پاس کیا ، یاد رہے کہ جیبری اور میہی کے درمیاں بہت زیادہ فاصلہ ہے ، پھر وہ وہاں تک ہر روز جاتے رہتے تھے، یہ وہی اسکول ہے جہاں سے، ڈاکٹر اللہ نزر ، شہید رحمت ، شہید شیہک جاں سمیت کئی شہیدوں نے تعیلم حاصل کی ہے ، یہ وہی اسکول ہے جہاں سے ایسے طالب علم نکلے ہیں کہ ان کا مقصد اپنے وطن کو آزاد کرانا تھا، ان کو اپنے غلامی کا احساس اسی ہی اسکول کے فاصلے نے دیا ہے ، جہاں نہ پینے کا پانی ، نہ ہی پڑھنے کےلیے اسکول، نہ ہی علاج کےلیے ہسپتال، ایسے ماحول میں انقلاب خود بہ خود ہی آجاتا ہے۔

شہید مسلم نے نوجوانی میں بلوچ تحریک میں خدمات سرانجام دینا شروع کیا، 2008 کے آخر میں وہ باقاعدہ حلف لیتا ہے اور تحریک میں شمولیت اختیار کرتا ، اپنے مسلح جدوجہد کا شروعات 2009 میں بی ایل ایف کے پلیٹ فارم سے کرتا ہے ، اسی ہی دن سے اپنی ایمانداری ، وطن پرستی ، جفاکشی کا سب کو یقین دلاتا ہے ، اسی ہی دن سے تنظیم کا ایک زمہ دار کارکن کے طور پر ، بلوچستان کے محاذ پر فرائض سرانجام دیتا ہے، شہید مسلم جان اپنے بڑے بھائی شہید شیہک جان کی کمانڈنگ میں بی ایل ایف کے کیمپ میں ٹریننگ لیا اور اس کے بعد، وہ ایک گشتی اور جنگی نیٹ ورک کا کارکن بنا۔

شہید مسلم ایک انتہائی نڈر اور بہادر انسان تھے، وہ اپنے کم عمری میں بہت سے ایسے کام کئے ہیں ، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنے بہادر اور نڈر انسان تھے ، شہید مسلم اپنے نیٹورک کے گشتی ٹیم کے ساتھ ، FWO کے کئی افسروں کو گرفتار کیا اور کئی افسروں کو انکے انجام تک پہنچایا ، FWO براہ راست آرمی کےلئے کام کرتا ہے اور ، باقاعدہ مسلح اور جدید تریں جنگی اسلحہ کے ساتھ آتے تھے، شہید نے کئی بار انکی بندوقیں چھین لیں ، اور ان کے کاموں کے آگے رکاوٹ بن گئے ، شہید نہ صرف مشکے بلکہ ، راغئے خاران گچک ، گریشہ ، آواراں، کولواہ اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں فرائض سرانجام دئیے۔

یاد رہے کہ شہید مسلم کے بڑے بھائی شہید جان 30 جوں 2015 کو شہید ہوئے ، شہید مسلم جان اس جنگ میں اپنے سنئپر کے کم گولیوں کے ساتھ جنگ لڑتے رہے اور دشمن سے دوبدو جنگ کرتے رہے ، اپنے کم گولیوں کے ساتھ جنگی طریقوں سے اپنے دوستوں سے کوور لیکر ، فوجی گھیرے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے ، اور دوسری طرف سے آکر فوج کو پسپا کردیا ، یہ جنگ صبح کے پانچ بجے شروع ہوا اور شام کو ختم ہوا، اس جنگ میں فوج کے کئی اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے ، جن کا اعتراف پاکستانی فوجی افسر نے کرلیا ، اس جنگ میں فوج نے شدید نقصان کے بعد عام آبادی کو تشدد کا نشانہ بنایا ، عام آبادی پر ظلم کیا ، کیوں کہ وہ سرمچاروں کا مقابلہ نہ کر پائے۔

شہید مسلم جان 2015 کو اپنے ایمانداری اور بہادری کے وجہ سے سیکنڈ لفٹینینٹ کے عہدے پر فائض ہوئے ، مشکے کے سخت سے سخت حالات میں باقی ساتھیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے اور کئی حملوں میں شریک ہوئے ، شہید نہ صرف بی ایل ایف کے ساتھیوں کے ساتھ رہے بلکہ ، شہید 2016 کے شروع سے لیکر 2017 کے آخر تک بی ایل اے اور یو بی اے کے ساتھیوں سمیت کاروائیاں کی ، وہ اپنے ساتھیوں سمیت شور ، کلات کے مقام پر مادر وطن بلوچستان کے لئے خدمت سرانجام دئیے ۔

یاد رہے شہید کمانڈر 2018 میں بنے تھے، شہید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے تحریک کے سفر کے دوران ایک انتہائی ، سمجھدار ، بہادر اور ہشیار سرمچار تھے ، جو ہمہ وقت کسی نہ کسی جگہ کام ڈھونڈتے رہتے تھے اور کاروائی کرتے رہتے تھے۔ یاد رہے شہید نے جس بھی مشن کا سوچا، وہ اپنے مشن میں ضروری کامیاب ہوئے ہیں، شہید اپنے سینیروں کے فیصلے کو ہمیشہ ایک مشعل راہ سمجھ کر ان کی ہدایت کے مطابق چلتے رہتے تھے ، جب بھی کسی مشن کا سوچ لیتے وہ ضرور پورا کرتے تھے، چاہے ان کو دس دن یا پندرہ انتظار کرنا پڑے، وہ اپنے مشن کی کامیابی کے بعد واپس آتے تھے۔

ء 2015 میں بی ایل ایف کے کئی ساتھی شہید ہوئے، جس میں کمانڈر سردو ، کمانڈر علی نواز ، کمانڈر شیہک ، اور کمانڈر رحمت شہید ہوتے ہیں، اس کے بعد فوج کے ٹارگٹ میں کئی ایسے ساتھی تھے جس پر فوج نے انعام رکھا تھا، ان ناموں میں سے ایک شہمیر بھی تھے، جس پر پانچ لاکھ کا انعام تھا، مشکے میں فوج ان چند ناموں سے بہت ٹارچر تھے ، وہ ہمہ وقت ان کو مارنے کےلیے آپریشن کرتے تھے اور ان مارنے میں ناکامی کے بعد عام آبادی کو تشدد کا نشانہ بناتے اور ان کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے ، 2015 کے بعد 2018 میں بھی وہ اس لسٹ میں شامل رہے ، شہید مسلم کی شہادت سے کچھ دن پہلے ایک دوست نے بتایا کہ مسلم جان کی فوٹو فوج نے بازار میں لگایا ہے ، جس پر دس لاکھ کا انعام رکھا ہے۔

شہید مسلم اپنے ساتھی ، منصور ، سکندر ، اور سعداللہ عرف فدا کے ساتھ ، دوران مشن ، فوجی گھیرے میں آجاتے ہیں ، صبح کے 9 بجے انکی دوبدو جنگ شروع ہوجاتی ہے ، وہ ایک بار فوجی گھیرے کو توڑکر نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور ، دوبارہ ان کو گھیرا جاتا ہے ، جہاں وہ شہید ہوجاتے ہیں ، اس جنگ میں میڈیا اور عوامی زرائع کے مطابق ، فوج کے بیس سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے اور بیس سے زائد زخمی ہوئے ، شہیدوں کی لاشوں کو پاکستانی آرمی نے مشکے لیویز کے حوالے کردیا اور جبکہ فوجیوں کی لاشوں کو خفیہ طریقے سے آواران منتقل کردیا ، فوج کو یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے لاشوں کو چھپاکر وہ اپنی ظلم ، شیطانی اور ظالمانہ چہرے کو چھپا نہیں سکتے ۔

شہید مسلم جان کے ماں ، لمہ ماہناز بلکل پریشان نہیں ہیں ، وہ آج فخر محسوس کررہی ہیں کہ انکے بیٹوں نے انکا نام روشن کردیا ہے ، شہید شہیک اور زاکر جان نے بھی اپنی آخری سانس تک فوج کا مقابلہ کیا ، اور جان قربان کردیا ، اسی طرح سے شہید مسلم جان نے بھی آخری سانس تک لڑا ، اور یہ بات بھی ظالم ریاست کو خبر ہونا چاہئے کہ ، شہید شیہک ، شہید زاکر ، شہید مسلم ، کے بندوق زمین پر نہیں گرینگے ، ان بندقوں کو اٹھانے کےلیے شہیدوں کے بھائی ، اور ساتھی زندہ ہیں ، اور آخری سرمچار اور آخری گولی کے ساتھ یہ جنگ جاری رہےگی، ہمارا مقصد بلوچستان کے آزادی ہے اور ہم شہادتوں سے مایوس نہیں ہونگے ، جس طرح شہید سفر خان ، نواز جان ، شہید حاکم ، ان کے فرزند معراج اور فرہاد ، باقی ساتھیوں نے قربانی دی تھی ، وہ جذبہ آج بھی موجود ہے ، بلوچستان کی آزادی ہمارا مقّدر ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔