میں نے اماں کو نیلے داغوں کے ساتھ دفنا دیا
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
اپنے ہاتھوں سے اس کی قبر پر مٹی کا ڈیلا بنایا تھا، اپنی آنکھوں سے قبر کے نشاں مٹتا دیکھ رہا ہوں
اس نے ایک بیٹی کی شادی دیکھی اور ایک بیٹی کی موت
وہ بیٹی کی شادی میں بہت خوش تھی اور بیٹی کی موت پر ملال کیا، پر وہ اس بیٹی کے ساتھ ہی مر گئی۔
اِس گھر میں ایک بار پھر عزرائیل آیا پر اب اماں عزرائیل کے دیے دُکھ سے ماوراہ ہو چکی تھی
اب اگر اسے خوشی کا احساس نہیں تھا تو اسے غم کا ملال بھی نہ تھا
اماں خوشی میں خوش اور غم میں غمگین ہونے سے بہت آگے جا چکی تھی
بیٹی کی شادی کے بعد بھی کئی اور شادیاں ہوئیں پر اماں بے خبر
بیٹی کے موت کے بعد بھی کئی اور اموات ہوئیں پر اماں بے خبر
اماں بے خبری کے دور میں جی رہی تھی، ایسی بے خبری، جہاں انسان کو اپنی بھی خبر نہیں رہتی۔
ابا کے گزر جانے پر پڑوس کی عورتیں اماں کے کاندھوں میں بانہیں ڈال کر زبردستی رونے کی اداکاری کرتیں اور اماں اس تذبذب میں رہتی کہ اماں کو دیکھ کر مجھے محسوس ہوتا کہ وہ کسی کو تلاش رہی ہیں۔
پر اماں کس کو تلاش رہی ہے؟
شاید مجھے؟
شاید اپنے آپ کو؟
شایداس معصوم بچی کو جو اس گھر میں بیاہ کر آئی اور آخر تک نہ اس گھر کی بولی سیکھ سکھی نہ گھر والوں نے اس کی بولی جانی، میں دوڑ کر جاتا ان عورتوں کو بہت کچھ کہتا اور اماں کے کاندھے ان رُدالی عورتوں سے آزاد کرتا، جب تک اماں پسینے سے شرابور ہو جاتی اور ایسے لگتا کہ کارونجھر سے کوئی پانی کا جھرنا بہہ رہا ہو۔
میں حیران رہ جاتا کہ کوئی کسی کے دکھ میں کیوں کر رو سکتاہے؟ جسے رونا چاہیے، ماتم کرنا چاہیے اسے کچھ خبر نہیں اور جنہیں دلاسہ دینا چاہیے جنہیں میری بہنوں کی ہمت بندھانا چاہیے وہ اپنے دردوں، دکھوں،غموں کو یاد کرکے رو رہی ہیں۔
بڑا سا گھر تھا۔ ابا کے سب بھائی اپنی بیویوں اور بہت سے بچوں کے ساتھ اس گھر میں رہتے تھے۔ دادا، دادی، وہ پوپھیاں جن کی شادیاں نہیں ہوئی تھی، اور دو چچا جو ابھی گھوڑی نہیں چڑھے تھے، وہ بھی اسی گھر میں رہتے تھے۔ گھر میں ایک بیری کا بڑا سا درخت لگا ہوا تھا۔ میرا اسکول دوپہر میں تھا۔ صبح میں گھر میں رہتا۔ میں ہوتا اور اماں کا دامن۔
اماں کو بہت سی گالیاں ملتی کہ یہ لڑکے کو خراب کر رہی ہے۔ لڑکا ہر وقت ماں کے دامن سے چپٹا رہتا ہے یہ کسی کام کا نہیں۔ میں اماں کی محبت والے دامن میں گھرا رہتا۔
بیروں کا سیزن تھا۔ بیری کچے پکے بیروں سے بھری ہوئی تھی۔ میں کوشش کر رہا تھا کہ کسی بھی طرح اس بیری پہ چڑھ جاؤں، پر میں نہیں چڑھ پارہا تھا۔ وہاں سے دادا کا گزر ہوا۔ مجھے موٹی ماں کی گالی دے کر کہا خبر دار اس پر مت چڑھنا۔ میں ڈر کہ بھاگ گیا۔ دادا نظروں سے اُوجھل ہو گئے۔ میں بیری کی طرف لوٹ آیا۔ کوشش کی اور بیری پہ چڑھ گیا۔ خوب کچے، پکے بیر کھائے
نیچے سے پھر گالی آئی
،،اوئے کتی کے بچے!،،
میں نے جیسے ہی نیچے جھانکا دادا کھڑا تھا
دل میں خیال آیا چھلانگ لگادوں اور بھاگ جاؤں
دوسرا خیال آیا امی!
دادا جلدی سے بجلی کا موٹا تارلے آیا
مجھے نیچے آنے کو کہا، اس شور میں اماں کو بھی معلوم پڑ گیا
اماں دادا کو ماما کہتی تھی
میں ڈر اور خوف سے بیری سے نیچے اترتا رہا۔
اماں دادا کو منتیں کرتی رہی کہ
،،ماما اسے نہیں مارنا، ماما یہ بچہ ہے، بہت ڈر گیا ہے،،ماما اسے نہیں مارنا!،،
میں بیری سے جیسے ہی نیچے اترا تو دادا کی گرفت میں تھا
دادا بجلی کے تار سے مجھ پہ شروع ہوگیا
ایک،دو،،تین۔۔۔۔۔
پہلا ہی تار پڑنے پر میں چیخ اُٹھا وہ ماں تھی، و ہ کب میری چیخیں سنتی اور برداشت کرتی۔ ماں نے مجھے اپنے سے لپٹا دیا، دادا مجھے چھوڑ کر اماں کو موٹی گالی دے کر بجلی کے تار سے اُسے پیٹتا رہا، کبھی سینے پہ بجلی کا تار پڑتا، کبھی پیٹھ پہ، کبھی پیروں پہ، کبھی رانوں پہ، اماں تھی کہ ہر طرف سے پٹتی رہی، اور وہ تھا کہ امں پہ بجلی کے ننگے تار کی بارش کرتا رہا۔ وہ کب تک تار کو اپنے جسم پہ برداشت کرتی رہی۔ وہ ننگا تار کب تک اس کے جسم پہ برساتا رہا؟
کون جانے اور کیوں جانے؟
اماں نے مجھے اس تار سے ایسے چھپایا ہوا تھا جیسے مرغی اپنے بچے چیل سے چھپاتی ہے
میں اماں کے نرم نرم بازؤں میں تھا اور اماں اپنے نازک، نفیس، جسم پہ نا کردہ گناہ کی سزا پا رہی تھی۔
وہ کب تک مار تا رہا، اماں کب تک تار اپنے جسم پہ برداشت کرتی رہی
کون جانے اور کیوں جانے؟
گھر میں شور مچ گیا بڑی بہن سب بچوں کا ہاتھ پکڑے اماں پر اُوندھے منہ گر پڑی
جب تک اماں ادھ مُنہ ہوچکی تھی پھر وہ بجلی کے ننگے تار کا ہنٹر رُکا
اماں روتی رہی
بڑی بہن سے لیکر چھوٹی بہنیں روتی رہیں
میں روتا رہا
وقت کا پہیہ چلتا رہا
اماں بہت خوبصورت تھی، اماں کی رنگت ایسی تھی جیسے کسی نے دودھ میں تھوڑا سا سندور ملا دیا ہو
بہت سے سفیدے میں تھوڑا سا گلابی پن
تھوڑے سے گلابی پن میں بہت سی سفیدی۔
اماں کو غصہ آتا تو اماں کا چہرہ کارونجھر کے گلابی گلابی پہاڑوں سا ہوجاتا
اور اماں خوش ہوتی تو اماں کا چہرہ ایسا محسوس ہوتا کہ کسی نے دودھ کو برتن میں بھر دیا ہے
اور وہ برتن پانی اور ہوا میں جھول رہا ہو
سفید سفید، میٹھا میٹھا، معصوم معصوم!
اماں کو کوئی بھی چھوٹی موٹی چوٹ آتی تو اس کا نشان کافی وقت تک رہتا
اگر کسی غم میں روتی تو آنکھیں چغلی کھا جاتیں کہ عائشہ روئی ہے۔
اماں بہت کہتی کہ وہ نہیں رو ئی پر آنکھیں کہتی کہ یہ روتی رہی ہے۔
تو اس وقت تو اماں نے بجلی کے ننگے تار سے وحشت کو برداشت کیا تھا۔
وہ نشان کب تک اس نازک جسم پہ رہنے والے تھے؟
میں ضد کرتا مجھے پیسے دو، اماں اپنے کپڑوں کے اندرونی جیب سے پیسے نکالتی تو میں دیکھتا کہ اماں کے جسم پہ کئی نیلے نیلے نشان ہیں، جو مٹ ہی نہیں رہے، ویسے بھی وہ میری ماں تھی مجھے اس سے کیا پردہ تھا۔ میں دیکھتا کہ اماں کا پورا جسم نیلے نیلے داغوں سے بھرا ہوا ہے۔
جب تک اماں ٹھیک تھی تو جسم پہ موجود نیلے نیلے داغوں پہ بھی پردہ پڑا رہا
پھر اماں دنیا کی وحشت کو نہ سہہ پائی اور بیمار ہو گئی۔
بڑی بہن کی شادی ہوگئی۔ و ہ خود پانچ بچوں کی ماں بن گئی۔اور چھوٹی بہنیں اماں کے پاگل پن سے ڈرتی تھیں۔ تو کون تھا جو اماں کو سنبھالتا، اسے کھلاتا، پلاتا، سُلاتا، نہلاتا؟
یہ سب کام میں نے سنبھال لیے۔
کھلانے سے لیکر سُلانے تک یہ کام تو چل جاتے، پرنہلانے کا کام مشکل ہوتا
یہ سوال سامنے آجاتا کہ میں اماں کو کیسے نہلاؤں؟
بڑی بہن دور، چھوٹی بہنیں بے وقوف اور اماں کی حالت کو دیکھ کر بس رونا شروع کردیتیں
پھر اماں کو میں نے چھوٹے بچوں کی طرح گود میں سُلا سُلا کر نہلایا
جب اماں کے سفید دودھ جیسے جسم پہ نیلے نیلے داغ دیکھتا تو میرے اوپر آسماں گر پڑتا
میں اماں سے آنسوؤں کی زباں میں سوال کرتا اماں یہ نیلے داغ کب جائیں گے؟
اماں اپنی اداس اداس آنکھوں سے جواب دیتی یہ میرے ساتھ دفن ہونگے!
میں اماں کا معصوم چہرہ چوم لیتا
وہ حیرت سے مجھے تکتی رہتی۔
پھر ایک دن وہ بھی آیا جب اماں نہیں رہی، اور وہ آج ہی کا دن تھا، میں لوگوں سے مل کر مٹی کو مٹی کے سپرد کر رہا تھا۔ لوگ مٹی کو مٹی میں دبا کر جانے لگے۔ پر میں کیسے گھر جاتا؟ میں نے تو بس مٹی، مٹی میں دفن نہیں کی تھی۔ میں نے معصوم ماں کو مٹی میں دفن کیا تھا، جو کتوں کے بھونکنے سے ڈر جاتی تھی۔ جو اندھیرے سے ڈرتی تھی۔ جسے انسانی لڑائی اور شور سے کوفت ہوتی تھی۔ آج و ہ عائشہ سپردِ خاک ہوئی
لوگ چلے گئے، میں اماں کے سرہانے بیٹھ کر بہت روتا رہا۔
گریاں کرتا رہا
اماں کے یوں چلے جانے پہ ماتم کرتا رہا
،،حلقہ کئے بیٹھے رہو اس شمع کے یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے، ہر چند کہ کم ہے،،
آنکھیں ساتھ نہیں دے رہیں، میں رو رہا ہوں۔
اماں کو میں نے نیلے نیلے داغوں کے ساتھ دفن کر دیا
ناتمام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔