مجھے اس سے محبت ہے! – محمد خان داؤد

239

مجھے اس سے محبت ہے!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

،،اکنوں کرا دماغ کہ پر سد ز باغبان
بلبل چہ گفت،گل چہ شنید و صبا چہ کرد!،،
،،اب کس میں اتنی جان ہے کہ باغبان سے پوچھے کہ
بلبل نے کیا کہا؟
پھول نے کیا سنا؟
اور باد نسیم نے کیا کیا؟،،
مجھے نہیں معلوم کہ یہ شعر کس کا ہے،پر میری حالت اس شعر جیسی ہے
میں اسے کیا کہتا ہوں؟
وہ کیا سنتی ہے؟
پھر ہمارے بیچ کے رشتے کا کیا بنتا ہے؟
مجھے کچھ نہیں معلوم، مجھے بس اتنا معلوم ہے کہ مجھے اس سے محبت ہے،اور محبت کیا ہے؟
جس سے محبت نہیں اس سے جنسی آسودگی حاصل نہیں کی جاسکتی
اور جس سے محبت ہو وہ جنسی آسودگی پر راضی نہ ہو
تو انسان کی نفسیات پر بہت گہرے اثرات پڑتے ہیں پھر اس کی ایسی ہی حالت ہو تی ہے جیسی اس شعر میں ہے کہ
،،میں اسے کیا کہتا ہوں؟
وہ کیا سنتی ہے؟
پھر ہمارے بیچ کے رشتے کا کیا بنتا ہے؟،،

نپولین ہل نے کہا کہ
،،انسان کے اندر سیکس کسی دریا کی طرح بہتا رہتا ہے
چاہے وہ انسان صوفی ہو، عالم ہو،جاہل ہو،دانشور ہو،لیڈر ہویا کوئی فقیر یا درویش!،،
انسان کی وہ سب شکلیں جن شکلوں میں یہ انسان،انسان اور حیوان کے روپ میں دھرتی پہ پایا جاتا ہے۔اس کے اندر سیکس،جنسی لذت،کسی دریا کی طرح بہتی رہتی ہے،لیڈر،فلسفی،دانشور،صوفی،اور درویش کے سوا سب انسان اس جنسی آسودگی کے دریا میں غوطا زن ہو تے ہیں،دریا ان کے اندر طلاطم سے بہتا رہتا ہے،پرلیڈر،فلسفی،دانشور،صوفی،اور درویش اس جنسی آسودگی کے دریا کے آگے بندھ باندھ دیتے ہیں۔ پھر دریا کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر ان کے اندر دریا طلاطم سے نہیں بہتا، یہ دریا میں غوطا زن نہیں ہو تے، دریا پھر بھی بہتا رہتا ہے، پھر لیڈر،فلسفی،دانشور،صوفی،اور درویشوں کے اندر سیکس کی آسودگی کی حالت ایسی رہ جا تی ہے کہ کسی بہتے پانی کے سامنے بند باندھ دیا جائے
پھر بھی وہ پانی بہتا رہے
یہاں سے
وہاں سے
بہتا پھر بھی
میں لیڈر،فلسفی،دانشور،صوفی،اور درویش نہیں میں تو ایک جاہل ہوں
پھر بھی میں نے اپنے اندر جنسی دریا پہ بند باندھ دیا ہے مجھ میں دریا اب بھی بہہ رہا ہے
پر یہاں،وہاں سے!
مجھے اس سے محبت ہے۔میں اسے بہت کچھ کہتا ہوں جب مجھے اس سے جنسی آسودگی حاصل نہیں ہو تی تو
میری نفسیات پر اثر پڑتا ہے اور پھر میری حالت ایسی ہی ہو تی ہے کہ
،،اکنوں کرا دماغ کہ پر سد ز باغبان
بلبل چہ گفت،گل چہ شنید و صبا چہ کرد!،،
،،اب کس میں اتنی جان ہے کہ باغبان سے پوچھے کہ
بلبل نے کیا کہا؟
پھول نے کیا سنا؟
اور باد نسیم نے کیا کیا؟،،
اور ہمارا محبت کا رشتہ ہے کہ جو
روز ٹوٹتا ہے
اور روز جُڑ جاتا ہے
محبت کے پہلے بوسے کی طرح!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔