مائیں بھی ایک جیسی،آنسو بھی ایک جیسے
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
ایک ماں کے بیٹے کو وردی والے دہشت گردوں نے ماں کے سامنے گولیوں سے چھلنی کردیا
اور دوسری ماں کے بیٹے کو وردی والوں نے گھر سے اغوا کیا اور پہاڑوں کے دامنوں میں قتل کر دیا
ایک ماں بلوچستان کی ہے اور ایک ماں وزیرستان کے پہاڑوں کی ہے
دونوں مائیں ایک جیسی، دونوں ماؤں کے آنسو ایک جیسے۔
دونوں مائیں زمیں پہ بیٹھی ہیں،
دونوں ماؤں کے مور مارے گئے ہیں
دونوں مائیں ایسے چیخ رہی ہیں جیسے برستی بارش میں کوئی مور مر جائے اور ڈیلیں اپنے مرتے مور کو دیکھ کر چیخ رہی ہوں
جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
،،ویو وسکا رے میں مور مری
تھی کیڈیون دانھون ڈیل کرے!،،
دونوں بہت بے بس ہیں۔ دونوں ماتم کر رہی ہیں۔ دونوں کا بالکل بس نہیں چل رہا۔ دونوں کے جوان بیٹے اس ریا ست میں گولی سے قتل ہوئے، جس ریاست کو مدینے جیسی ریاست کہا جارہا ہے۔
دونوں کے بیٹے نہ کردہ گناہوں کی بھینٹ چڑھ گئے، دونوں ماؤں کو وردی والوں نے ایسے عذاب میں مبتلا کردیا ہے، جس عذاب کا ازالہ ممکن ہی نہیں۔ دونوں مائیں ننگی دھرتی پہ بیٹھے خدا کو تلاش رہی ہیں۔ دونوں ماؤں کے ہاتھ خدا کی طرف بلند ہیں۔ دونوں مائیں نہیں جانتیں کہ انصاف کیا ہے پر دونوں مائیں یہ جانتی ہیں کہ ان کے جوان بیٹوں کے جسموں سے گولی لگنے پر خون ایسے نکل رہا تھا جیسے چشمے سے پانی اُبل پڑتا ہے، دونوں مائیں جانتی ہیں کہ اماں حاجراں نے زم زم کہہ کر پانی کو روکا تھا اور ان ماؤں کی زباں میں اتنی تاثیر نہیں کہ یہ زم زم کہیں اور ان جوان قتل ہو تے بیٹوں کے جسموں نے اُبلتا خون رُک جائے۔
دنوں ماؤں نے بہت درد کے بعد بیٹے جنیں تھے
دونوں ماؤں نے بہت مشکل سے بیٹے جوان کیے تھے
دونوں ماؤں کے دلوں میں بہت ارمان تھے
دونوں ماؤں نے بندوق برداروں کے پیر پکڑے تھے
دونوں ماؤں نے بندوق برداروں کے بھاری جوتوں کی ٹھوکرے کھائیں تھیں
دنوں مائیں بندوق برداروں کے سامنے ہاتھ جوڑے منتیں کرتی رہیں تھیں
دونوں مائیں بندوق برداروں کے سامنے بہت روئیں تھیں
دونوں ماؤں کے بیٹوں کے جسموں سے بہت سی گولیاں آر پار ہوئیں
دونوں مائیں یتیم ہوئیں
اور پھر دونوں مائیں یسوع کی ماند صلیب پر چڑھ گئیں
دو مائیں
دو باتیں
دو بیٹے
دو قتل
پر سانحہ ایک جیسا
مائیں ایک جیسی، درد ایک جیسے، خدا کی تلاش ایک جیسی، خدا کی طرف اُٹھتے ہاتھ ایک جیسے، پکار ایک جیسی، درد ایک جیسا ننگی زمیں ایک جیسی، زمیں پر قتل ہوتے بیٹے ایک جیسے، بیٹوں کے جسموں سے گرتا لہو ایک جیسا وردی ایک جیسی، وردی کی سفاکی ایک جیسی، بہت سی گالیاں ایک جیسی، مائیں ایک جیسی، ماؤں کے آنسو ایک جیسے، ماؤں کا رونا منت کرنا ایک جیسا، بندوقیں ایک جیسی، ان کی بھونک ایک جیسی، ان کی نال ایک جیسی، اس نال سے نکلتی گولی ایک جیسی اور ماؤں کا ماتم ایک جیسا
میں کیسے کہوں مائیں مختلف ہیں؟
میں کیسے کہوں درد الگ الگ ہیں
میں کیسے کہوں بولی الگ الگ ہے
درد کی بولی ایک جیسی
آنسو ایک جیسے
آہ و بکا ایک جیسی
بندوق بردار ایک جیسے تو بھونکتی بندوق کے بعد بنتی قبر ایک جیسی
کفن ایک جیسا
کفن پہ سرخ دھبے ایک جیسے
قبر پہ پڑتے پھول ایک جیسے
درد کا ڈھلتا دن ایک جیسا درد میں کٹتی رات ایک جیسی
ماؤں کا ماتم ایک جیسا بہنوں کا رونا ایک جیسا
گھر کا ماتم کدے میں بدل جانا ایک جیسا
تو میں کیسے کہوں بلوچ ماں اور ہے
پشتون ماں اور ہے
میں کیسے کہوں
بلوچستان اور ہے
وزیرستان اور ہے
جب درد ایک سا ہے
مائیں ایک سی ہیں
لہو ایک سا ہے
غائیب خدا ایک سا ہے
قبریں ایک سی ہیں
تو بلوچستان اور وزیرستان الگ الگ نہیں ہیں
یہاں ریاست مدینہ کو نوٹس لینا چاہیے تھا بلوچستان کی ماں سے لیکر وزیرستان کی ماں تک کے آنسو پونچھنے چاہیے تھے۔ ان کے سروں پر محبت اور دلاسے کی چادر رکھنی چاہیے تھے اور ان کے غموں کو دور کرنا چاہیے تھا پرکچھ نہیں ہوا آج بھی بلوچستان میں وردی کے ہاتھوں قتل ہو جانے والے حیات بلوچ اپنے بیٹے کی قبر پر بیٹھی رو رہی ہے اور سوچ رہی ہے کہ وہ کراچی سے لوٹا ہی کیوں اگر وہ کراچی سے نہیں لوٹتا تو بھونکتی بندوقوں کا شکار بھی نہیں ہوتا اور وہ ماں غائیب خدا کو بھی نہ تلاشتی۔
ایک ایسی ہی پشتون ماں وزیرستان کے پہاڑوں کے دامنوں میں اس بیٹے کو رو رہی ہے جسے کچھ دن پہلے بندوق بردار گھر سے اُٹھا کر لے گئے۔ معصوم ماں اس بیٹے کو بچانے کے لیے جو کچھ کرسکتی تھی، سو اس نے کیا، سفاک بندوق برادروں کے سامنے رویا بھی ان کی منتیں بھی کیں۔ ان کے پیر بھی پکڑے پر وہ بندوق بردار اس پشتون ماں کو بھاری جوتوں کی ٹھوکر مار کر اس بیٹے کو لے گئے اور کچھ دن تک تو اس گھر میں چولہا ہی نہیں جلا پر کسی نے لکھا ہے کہ
،،اگر خدا،خدا ہے تو پیٹ بھی ڈیڑھ خدا ہے!،،
پھر اس گھر میں چولہا بھی جلا اور کھانا بھی پکا
پر اب اس گھر میں کبھی چولھا نہیں جلے گا
جو وہ بیٹا بھی ویسے ہی قتل ہو گیا جیسے حیات بلوچ قتل ہوا تھا
تو بلوچ اور پشتون بولی سے کیا ہوتا ہے؟
مائیں بھی ایک جیسی
درد بھی ایک جیسے
اور آنسو بھی ایک جیسے!
نمکین،نمکین
پھیکے پھیکے
اب ان ماؤں کا درد عمر بھر رہے گا.چاہیے یہ ریاست اسلامی بن جائے
چاہیے مدینہ!
پر مائیں تو کافر ہی ٹھہریں نہ
کیوں کہ یہ باغی بچے جنتی ہیں
اور باغی بچے اور باغی مائیں اس ریاست مدینہ کو پسند نہیں
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔