سرمچار – محمد خان داؤد

275

سرمچار

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

جب سرمچار اپنے ہاتھوں میں بندوق لیئے پہاڑوں پہ چڑھتا ہے، تو پہاڑوں پہ موجود نرم نرم گھاس آگے بڑھ کر اس کے پیروں میں بچھ جاتی ہے، اور سورج اس کے گالوں کو چومتا ہے
پہاڑوں کے دامن میں موجود پھول اس کے لیے اپنا سر جھکاتے ہیں
اور ان پھولوں کی خوشبو سرمچاروں کے جسم سے محبوبہ کی جھپی کی ماند لپٹ جاتی ہے
سرمچار جب اپنے ہاتھوں میں بندوق لیے پہاڑوں پہ چڑھتے ہیں
تو پہاڑی پھولوں پہ بہار سی چھا جاتی ہے
پر جب یہی سرمچار اپنے سینے میں گولی کھا کر پہاڑوں سے نیچے گرتا ہے
تو دکھ میں سورج سیاہ پڑ جاتا ہے
وہ سرمچار، جو دھرتی کے بیٹے ہیں اور دھرتی ان کی ماں ہے
وہ سرمچار جو دھرتی کو عزت دیتے ہیں اور اس عزت میں اپنی جان بھی گنوا دیتے ہیں
وہ سرمچار جو مہا انقلابی ہیں
وہ سرمچار جو سرخ سویرا ہیں
وہ سرمچارجو نئی اُمید ہیں
و ہ سرمچار جو وعدہ ہیں
وہ سرمچار جو وفا کی علامت ہیں
وہ سرمچار جو بھیگی بھیگی خوشبو ہیں
وہ سرمچارجن کی آنکھ میں ہمیشہ گیلا پن رہتا ہے
اور وہ جلتے دل کے ساتھ وہاں ہیں جہاں ان کو اپنی بھی خبر نہیں ہوتی جس کے لیے غالب نے لکھا تھا کہ
،،کوئی واں سے نہ آسکے یاں تک
آدمی واں نہ جا سکے یاں کا!،،

لکھتے لکھتے میرے ہاتھ شِل ہو گئے ہیں! تم میرے ہاتھوں کو دیکھو میں تمہاری پیشانیوں کو دیکھتا ہوں
تم میرے الفاظ کو دیکھو، میں تمہا ری بندوقوں کو دیکھتا ہوں
تم میری ہتھیلوں کو دیکھو، میں تمہا رے وعدے کو دیکھتا ہوں اس وعدے کو
جو سرمچاروں نے اپنے آپ سے کیا ہے
وفا کا وعدہ
دیس کی مٹی کا وعدہ
اور دیس کی مٹی میں دفن ہونے کا وعدہ

تم دیس سے دور نہیں ہو، اور دیس تم سے دور نہیں ہے، تم دیس میں بستے ہو اور دیس تم میں بستا ہے
تمہیں اس دیس سے کوئی بھی دور نہیں کر سکتا۔ تم چلتے ہو تو اس دیس میں!
تم محبت کرتے ہو تو اس دیس میں
تم محبت میں پسینہ بہاتے ہو تو اس دیس میں
اور معصوم بچے تمہارا نام پکارتے ہیں تو اس دیس میں
اور محبوبائیں اپنے نینوں میں تمہا رے لیے کاجل بھرتی ہیں تو اس دیس میں
اور تمہارا لہو گرتا ہے تو اس دیس میں
اور تم بندوق کی گولی کھاکر من مندر کی مورتیوں جیسے گرتے ہو تو اس دیس میں
تم اس دیس سے ہرگز ہر گز دور نہیں
تم ہی دیس ہو
اور دیس ہی تم سے ہے
تم دیس ہو بہ ہو دیس جیسے
اور ہو بہ ہو دیس تم سا ہے
تمہاری آنکھوں میں آزاد دیس کے سپنے ہیں
اور غلام دیس کی غلام آنکھوں میں تمہارے ہی سپنے ہیں

مجھے معلوم ہے تمہا رے ہاتھوں میں تو آتش گیر مادہ ہے پر تمہا رے سینوں میں دھڑکتا دل بھی ہے، جس دل میں دھڑکن بھی ہے، جس دل کو کان بھی ہیں اور وہ کان بہت دور کچے مکانوں سے ماں کی آوازیں سن لیتا ہے، جب ماں نیند میں پکارتی ہے،حمل!شیران،جیند،، تو پہاڑوں میں تم بے چین ہو جاتے ہو، جب بہت دور پہاڑوں کے دامنوں میں بنے کچے مکانوں سے محبوبہ آنکھ میں اس لیے سرما نہیں لگاتی کہ اس کی آنکھ کو کون دیکھے گا تو تم یہاں پہاڑوں پہ مچل جاتے ہو اور بہت دور پہاڑوں کی اُوٹ میں جب تمہا رے معصوم بچے پاؤں میں مخصوص آوازوں والے گھنگرو باندھ کر پہلا قدم چلتے ہیں تو تم یہاں دل تھام لیتے ہو۔
کیوں؟

اس لیے کہ تم تو دیس کی آزادی کا درد لیے پہاڑوں کے دامنوں میں آبسے ہو، پر تمہارا پیار کرنے والا دل ان ہی گھروں میں رہ گیا ہے، جہاں تم محبت میں بوسہ لیا کرتے تھے، جہاں تم یہ فرمائیش کیا کرتے تھے کہ تم میرے سامنے بال کھولا کرو مجھے اچھے لگتا ہے،، جہاں تم اپنے ہاتھوں سے ان گورے پیروں میں پائل باندھاکرتے تھے، جہاں تم ضد کر کے سفید ہتھیلی پہ مہندی سے اپنا نام لکھوایا کرتے تھے۔

اب تم وہاں نہیں ہو پر وہ مہندی لگے ہاتھ اب بھی وہاں ہیں اوران ہاتھوں پہ لکھا نام اب بھی باقی ہے اور وہ گورے ہاتھوں کی گوری ہتھیلی بہت کوششوں سے وہ مہندی سے لکھا نام بچاتی آرہی ہے۔
کیوں کہ اسے تم سے پیار ہے!
کیوں؟
کیوں کہ وہ تمہا ری یاد میں روتی ہے
کیوں؟
کیوں کہ تم اس کے بچے کے بابا ہو
کیوں؟
اس لیے کہ اس نے تم سے بہت پیار کیا ہے
کیوں؟
اس لیے کہ اسے بھی تمہاری طرح غلامی سے نفرت ہے
کیوں؟
اس لیے کہ وہ تمہیں بہت چاہتی ہے
کیوں؟
اس لیے کہ وہ جانتی ہے تم دیس جیسے ہو
کیوں؟
اس لیے کہ اسے خبر ہے دیس تمہا رے جیسا ہے!
کیوں؟
اس لیے کہ وہ تمہارے وعدے پہ اعتبار کیے ہوئے ہے
کیوں؟
اس لیے کہ وہ جانتی ہے کہ تم لوٹ آؤ گے
کیوں؟
اس لیے کہ وہ جانتی ہے کہ اس کا دیس آزاد نہیں
کیوں؟
اس لیے کہ وہ جانتی ہے کہ وہ اس وقت غلام دیس میں جینے کی سزا میں جی رہی ہے۔

تم تو بہت سا سفر کرکے نہیں معلوم پیر کے قدموں کی طرح کہاں سے کہاں نکل آئے ہو
پر وہ سینے میں موجود دل کی مانند وہیں کی وہیں ٹہری ہوئی ہے
اس شعر کی ماند کہ
،،عمر تہ کئی در لھنگے کتھے ویین پھُتی
دل!جتے بیٹھی ہوئی اُتے ئی بیٹھی آ!،،
،،عمر تو کئی در پھلانگ کر کہاں سے کہاں جا پہنچی
دل!جا ٹھہرا تھا وہی ٹھہرا ہوا ہے!،،
اگر تم دیس ہو تو محبوبائیں دل ہیں!
اگر تم پہاڑ ہو تو محبوبائیں ان پہاڑوں کے درمیاں لگے پھول ہیں
اگر تم بندوق کی گھن گھرج ہو تو وہ پائل کی جھنکار ہیں
تم سرمچار ہو
اور وہ محبت ہیں
تو سرمچار اور محبت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں
محبت، سرمچار
سرمچار،محبت!

سرمچارو!میں تم سے محبوباؤں کی دوری اور دیس کے درد سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں
تم مجھے سنو
میں ان محبوباؤں کی صدا سنتا ہوں
جو تم بن ایسے ہی ہیں
جیسے تم بن دیس کے!
جب تم دیس کی آزادی کے بعد پہاڑوں سے اترو
تو وہ پھول ضرور چن لانا جن پھولوں کی خوشبو وہ محبوبائیں دور سے محسوس کر رہی ہیں
اور وہ پھول ان کی مانگوں میں سجا دینا
ان مانگوں کو کبھی میلا نہ ہونے دینا
جس مانگ کے نیچے آنکھیں منتظر تھیں
آنکھیں اداس تھیں
اور آنکھیں گیلی گیلی تھیں!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔