اب صوبیہ قاضی کا نام بس پولیس روزنامچے میں درج ہے – محمد خان داؤد

269

اب صوبیہ قاضی کا نام بس پولیس روزنامچے میں درج ہے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

اس کے بدن پہ کالا کوٹ رہتا تھا، جو کالا کوٹ اس کا محافظ ہوا کرتا تھا جس کالے کوٹ کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوجاتھا تھا کہ ہو نہ ہو وہ کوئی وکیل ہے۔
پر اس کے گھر میں وہ کالا کوٹ اس کا محافظ نہیں بن سکا
اس کے ہاتھوں پہ قانون کی کتابوں کا بار ہوا کرتا تھا
پر کون جانتا تھا کہ اسے پستول کی دو گولیوں کا بار بھی سہنا پڑے گا۔
اس کی دلی خواہش تھی کہ اس کے سر پر انصاف وہ قانون کی دستارِ فضیلت رکھی جائے اور اس تقریب میں وہ اپنے گھر والوں کو بھی شامل کرے۔
پر کون جانتا تھا کہ اس کے کپڑوں کو خون سے سرخ کر دیا جائیگا اور جب اسے کفن پہنایا جائیگا تو وہ بھی سرخ ہو جائیگا۔!
اس کی خواہش تھی وہ بہت سی کتابیں پڑھے، قانونی پیچیدگیوں کو سمجھے اور آگے بڑھ جائے
پر کون جانتا تھا کہ وہ ابھی کچھ بھی نہ سمجھ پائیگی اور درندگی کا شکار ہو جائیگی۔

اسے بار روم میں بیٹھ کر باتیں کرنا اچھا لگتا تھا۔ آج صبح اس کی اداس لاش اسی گھر سے برآمد ہوئی جس گھر میں وہ کچھ سال پہلے بیہاکر آئی تھی۔
اس کی خواہش تھی کہ وہ قانون پر کئی کتابیں لکھے
آج اس کے یوں قتل ہو جانے پر حیدرآباد کے کسی تھانے کے روزنامچے میں ابتدائی رپورٹ لکھی جا رہی ہے۔
وہ کورٹ کی اس کرسی پر بیٹھنے کی خواہش مند تھی جس کرسی پر جج بیٹھ کر فریقین کو سنتا ہے
اور پھر اپنا قلم چلا کر فیصلہ لکھتا ہے
پر وہ آج اس ایمبولینس میں گھر سے اسپتال،اور اسپتال سے گھر جا رہی ہے جہاں سے پھر وہ مٹی میں دبا دی جائیگی۔
اس کے نصیب میں جج بننا لکھا ہوا تھا، پر پدر شاہی معاشرے نے اسے مقتول بنا دیا
وہ اپنے کانوں سے کئی فریقن کو سنتی پر اب تو وہ اپنے کانوں سے اپنی ماں کی چیخیں بھی نہیں سن رہی۔
وہ اپنی آنکھوں سے کئی مظلوم عورتوں کو دیکھتی اور ان کی داد رسی بھی کرتی
پر آج تو وہ اس قاتل کو بھی نہیں دیکھ رہی جو قاتل اس کا اپنا محبوب تھا۔
وہ اپنے ہاتھوں سے کئی فیصلے لکھتی اور جاتے جاتے ان فیصلوں میں آخری ایسا نوٹ بھی درج کر جاتی کہ
،،اب اگر کوئی کسی مظلوم لڑکی کو قتل کریگا تو اس قتل کا فیصلہ بہت جلد کر دیا جائیگا!،،
پر اب مجھے نہیں معلوم کہ اس مقتولا کا قاتل جلد گرفتار بھی ہوگا کہ نہیں
اسے سزا بھی ملے گی کہ نہیں
اور وہ اپنی غلطی پہ پشیمان بھی ہوگا کہ نہیں؟

اسے جدید طریقے سے کالا کر دیا گیا ہے۔ اسے نیند میں قتل کر دیا گیا ہے۔ وہ اب اس نیند سے کبھی نہیں جاگے گی اور کون ہوگا کہ اسے جگائے گا اور اسے کہے گا
،،بیٹی!اماں اُٹھ جلدی کرو کورٹ نہیں جانا کیا!،،

مجھے نہیں معلوم کہ وہ کس کالے قانون کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہے پر اب وہ ہمیشہ انصاف کی منتظر رہے گی
اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ کب سحر ہوگی اور کب خبر ہو گی اور کب اسے یہ بتایا جائے گا کہ
،،بی بی صلیب سے اتر آؤ تم سے انصاف ہوگیا ہے!!،،

جب تک اس کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا بس وہ ایک ہی نہیں، سندھ کی تمام قدیم اور جدید ،،کاریاں،، انصاف کی منتظر رہیں گی۔

کتنا مشکل ہے، بیٹی کو پڑھانا۔ اس سے مشکل ہے بیٹی کی اس پدرشاہی معاشرے میں حفاظت کرنا، اس سے مشکل ہے اسے گھر سے بدا کرنا اور کتنا آساں ہے اس قتل کر دینا۔ صوبیا قاضی بھی اس ہی پدر شاہی معاشرے کے ہتھے چڑھ گئی۔ وہ قتل ہو گئی۔پر بڑا ظلم تو یہ ہے کہ وہ اپنے ہی گھر میں، اپنے ہی شوہر کے ہاتھوں اپنے ہی بستر پہ نیند میں قتل ہو گئی۔ وہ ایسے قتل ہو گئی جیسے اب اس کے قتل کا کوئی حساب ہی نہیں ہوگا۔
پر یہ سب کچھ کہاں ہوا؟
یہ سب کچھ سندھ میں ہوا
اس سندھ میں جس سندھ کے ہم ثناء گو ہیں

حالاںکہ سندھ کی ایسی حالت ہے کہ ہمیں اس سندھ کا نوحہ خواں ہونا چاہیے تھا، پر ہم ایسی حالت میں بھی اس سندھ کے ثناء خواں بنے ہوئے ہیں جہاں جب مرد کا دل چاہتا ہے وہ اُٹھتا ہے اور اپنی بندوق کی نالی معصوم لڑکیوں کے معصوم پستانوں پہ رکھ کر ٹریگر دبا دیتا ہے۔
اور پھر خوبصورت لال ہونٹوں سے یہ دبی آواز بھی نہیں نکلتی کہ
،،اماں،،،،ا،،،،،م۔۔۔۔۔ا،،،،ں!،،
گھوڑا چل پڑتا ہے اور گوری گر پڑتی ہے!
اور پیچھے بوڑھی ماں اپنی کمر پر دوپٹہ باندھے اس پولیس موبائل کے پیچھے دوڑتی رہتی ہے جس پولیس موبائل کے فرش پر پولیس والوں کے پیروں میں اس گوری کا سرخ لاش پڑا ہوا ہوتا ہے، جسے اب ایک نیا نام دے دیا جاتا ہے کہ
،،کاری!،،

پر صوبیہ قاضی کاری نہ تھی، وہ تو اپنے من سے گوری تھی۔
وہ کتابیں پڑھنا چاہتی تھی
وہ کتابیں لکھنا چاہتی تھی
وہ قانون کی شاگرد تھی
وہ کیس اسٹڈی کیا کرتی تھی
اس کے نینوں میں کئی خواب تھے
تتلیوں جیسے خواب،
رنگوں جیسے خواب
بارشوں جیسے خواب
نئی اُمیدوں جیسے خواب
ابھی تو ان خوابوں میں رنگوں کا بھرنا باقی تھا
اس سے پہلے بھونکتی بندوق کا رُخ اس طرف کر دیا گیا، جس طرف صوبیہ قاضی کی حیات تھی بندوق چلی کچھ نہ بچا
سوائے پولیس کے روزنامچے کے!
وہ جج بننا چاہتی تھی۔ وہ اپنے خوابوں میں رنگ بھر رہی تھی، پھر دھیرے دھیرے ہی صحیح!
پر یہ سب کچھ کہاں ہوا
اس سندھ میں جو سندھ بیمار ہے
پر جس سندھ کو یہ گمان ہے کہ وہ بیمار نہیں
،،ایڈوکیٹ صوبیہ قاضی!،،
جس نام کی تختی کو کورٹ کے ججز لاجز میں لگنا تھا
اب یہ نام پولیس کے روز نامچے میں درج ہے!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔