کوئٹہ: بلوچ لاپتہ افراد کیلئے احتجاج کو 4038 دن مکمل

162

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4038 دن مکمل ہوگئے۔ خادم حسین سیال، ممبر ایگزیکٹیو باڈی سیال ایسوسی ایشن پاکستان، وقار احمد رخشانی بلوچ، صوبائی فنانس سیکرٹری عوامی لیگ بلوچستان، حمیدہ نور، طلباء رہنماء ماہ رنگ بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ جب ہم ان ظلم و زیادتیوں کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے سامنے صرف ایک راستہ رہ جاتا ہے۔ بزدلی کے موت مرنے سے بہتر ہے کہ بہادری کی موت مراجائے۔

انہوں نے کہا کہ مادر وطن کی چیخ و پکار، بے گور و کفن لاشوں اور ماں بہنوں کی آنسووں کی ہم نے قسم کھائی ہے کہ مادر وطن کی غیر مند فرزند ہونے کے ہم پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ان مظالم کے خلاف منظم اور پرامن جدوجہد کرتے رہینگے لیکن ہمارے اس جدوجہد سے پریشان ہوکر اپنے زرخرید ایجنٹوں وار مخبروں کو ایکٹو کیا اور ان کو ان نوجوانوں کی کھوج لگانے کی ٹاسک دی گئی۔ ان مخبروں کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیئے گئے ہیں، ان کو بھاری رقوم، جدید اسلحہ اور گاڑیاں دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کاموں کے لیے خفیہ اداروں نے اپنے مخبروں، ڈیتھ اسکواڈز، منشیات فروشوں، اغواء کاروں سمیت دیگر سماجی برائیوں میں ملوث افراد کو سامنے لیکر آگئے۔ یہ ضمیر فروش ریاستی دلدل چند مراعات کی خاطر اپنے ہی نوجوانوں کے مخبری کرکے ان کو ایف سی اور خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر اغواء کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہزاروں بلوچ اپنی حالت زار اور اپنے پیاروں پر گزرنے والے اذیتوں کا احساس کرتے ہیں تو ہم سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آیا یہ جو انسانی حقوق دعائیاں ہیں کہ وہ بلوچوں کے لیے بھی ہیں۔ کیا ہمیں بھی اپنے پیاروں کے ساتھ خوش رہنے کا حق حاصل ہے، کیا بلوچ انصاف کے حق دار ہیں اور انہیں جبری طور پر لاپتہ نہ کیا جائے۔