منظور کشمیری اور حیات بلوچ کا فرق – فتح بلوچ

752

منظور کشمیری اور حیات بلوچ کا فرق

تحریر: فتح بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

فروری کا مہینہ سال 2011، بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں فوج کی فائرنگ سے کشمیر کے علاقے ہندوارہ کے رہنے والے ایک نوجوان طالب علم کی ہلاکت کا واقعہ پیش آتا ہے۔ جس پر بھارتی فوجی کمانڈر اس واردات کو ’پہچان کی غلطی‘ قرار دے کر عوام سے معافی مانگتا ہے اور فوجی سطح پر تفتیش کا اعلان کیا جاتا ہے۔

اس دوران پولیس فوج کی ایک یونٹ کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرتا ہے جبکہ سرکاری سطح پر بھی تحقیقات کا حکم دیا جاتا ہے اور یوں کشمیری طالب علم کو انصاف مل جاتا ہے۔

جبکہ دوسری طرف اس واقعے کے خلاف پاکستان بھر کے علاوہ (مقبوضہ) بلوچستان میں بھی مذہبی جماعتوں سمیت وفاق پرست جماعتوں نے بھر پور احتجاج کیا تھا۔ یوں تو بلوچستان میں ہر ہفتے کشمیر، فلسطین میں مظالم کے خلاف ریاست پرست جماعتوں کے احتجاج ہوتے رہتے ہیں لیکن آج میں دس سال پہلے کشمیر میں قتل ہونے والے نوجوان طالب منظور احمد قتل کیس کو سامنے رکھتے ہوئے گذشتہ روز تربت میں قتل کیئے جانے والے نوجوان حیات بلوچ کے قتل پر روشنی ڈالتے ہوئے کچھ لکھنے کی گستاخی کرونگا۔

حیات بلوچ ضلع تربت کے رہائشی تھے، وہ چار بہن بھائی تھے، جن میں حیات بلوچ کا نمبر دوسرا تھا۔ وہ کراچی میں شعبہ فزیالوجی میں بی ایس کے فائنل ایئر کے طالب علم تھے۔ کورونا کی وجہ سے یونیورسٹی بند تھی جس کی وجہ سے وہ آبائی علاقے تربت آئے تھے۔ تیرہ اگست کو آپسر کے مقام پر ایف سی کے ایک قافلے پر ایک بم حملہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں بلوچ مسلح تنظیمیں پاکستانی فورسز پر حملے کرتے آرہے ہیں۔ بم حملہ کے بعد ایف سی اہلکار قریبی باغات اور علاقوں کا گھیراؤ کرتے ہیں اور وہاں سے نوجوان حیات کو پکڑ کر اس روڈ پر لاتے ہیں جہاں دھماکہ خیز مواد سے ایف سی پر حملہ ہوا تھا۔

حیات بلوچ کے والد کے مطابق وہ میرے بیٹے کو پکڑ کر تھپڑ مارتے رہے اور اس کے ہاتھ، پاؤں باندھ کر روڈ پر لا کر آٹھ گولیاں اسکے جسم میں پیوست کرتے ہیں جس سے وہ موقع پر ہی دم توڑ دیتا ہے۔

یہ سب منظر حیات کے بوڑھے والد اپنے آنکھوں سے دیکھتا ہے، اور یوں پاکستانی فورسز نے ایک نوجوان سے اسکی زندگی اور بوڑھے والدین سے انکا مستقبل چھین لیا۔

ویسے تو بلوچستان میں اس طرح کے واقعات اکثر و بیشتر ہوتے آرہے ہیں، واقعے کے بعد بلوچستان سے شائع ہونے والے اخبارات نے حسب روایت ایسا تاثر دیا کہ حیات بلوچ بم دھماکہ کی زد میں آکر جان سے گئے ہیں۔ لیکن دی بلوچستان پوسٹ نیوز اور بی بی سی نے اصل حقائق کے ساتھ رپورٹنگ کرتے ہوئے لوگوں تک حقیقی معلومات پہنچانے میں کردار ادا کیا۔

پھر عوامی رد عمل سے بچنے کے لیے ایف سی کے ایک اہلکار کی گرفتاری کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور دوسرے دن نامعلوم ایف سی اہلکار کے خلاف حیات بلوچ کے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔

مگر یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کے کمزور عدالتی نظام میں طاقتور ادارہ ایف سی کے اہلکار کو سزا ہونا ناممکن ہے۔

یاد رہے تربت میں سانحہ ڈنُک میں ملوث فوج کے اس ذیلی ادارہ ایف سی کے بنائے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے موقع واردات پر گرفتار ہوئے تھے، انکو تربت پولیس سزا دینے کی سکت نہیں رکھتا ہے، تو حیات کے قتل میں ملوث اہلکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا مشکل ہے۔

بلوچستان میں جب کوئی انسانیت سوز مظالم کا واقعہ پیش آتا ہے اور جس میں فوج ملوث ہو تو بلوچستان کی پارلیمانی اور مذہبی جماعتیں خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں اور حیات بلوچ کے کیس میں بھی یہی ہوا۔ جبکہ دوسری طرف کراچی، کوئٹہ، تربت اور دیگر بلوچ اکثریتی علاقوں میں طلباء اور سول سوسائٹی کے لوگ سراپا احتجاج ہیں اور حیات بلوچ کے قتل میں ملوث اہلکاروں کو سزا دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

اگر حیات بلوچ کا تعلق سری نگر سے ہوتا اور وہ جوہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم ہوتے اور انڈین آرمی کے ہاتھوں مارے جاتے تو اس وقت بلوچستان میں یہ جماعتیں آسمان سر پر اٹھاتے جہادی نعروں سے لوگوں کا خون گرما جاتا۔ چونکہ بدقسمتی ست حیات بلوچ کا تعلق بلوچستان سے ہے اور مارنے والے پاکستان کے فورسز تھے تو بلوچستان کے مذہبی و سیاسی جماعتوں نے جان کی امان کے لیے خاموشی کو بہتر سمجھتے ہوئے چپ سادہ لیا ہے۔

اگر سانحہ ڈنُک کی طرح اس واقعے کے خلاف بلوچستان میں عوامی سطح پر منظم انداز میں لوگ باہر نکل آنے میں کامیاب ہوئے تو یہی ڈر ہے کہ پارلیمان جماعتیں اس مسئلے کو ہائی جیک کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

اس وقت بلوچ آزادی پسند قوتوں کے علاوہ طلباء تنظیموں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خشک اخباری بیانات پر تکیہ کرنے کے بجائے منظم انداز میں اس طرح کے واقعات پر ردعمل دیں وگرنہ بلوچستان میں بدترین انسانی بحران جنم لے سکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔