سمی بلوچ کیوں روتی ہے؟ – محمد خان داؤد

442

سمی بلوچ کیوں روتی ہے؟

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

،،ادی کا ایندی چھپر مون سنگ تھیو
لائیندیس لگن کھے ملیراں مہندی
وِندر آؤن ویندی،آری جام اجھو کرے!،،
اگر لطیف کی اس بات کو دیکھتا ہوں تو یہ بات سمی بلوچ پر سوفیصد درست ثابت ہو تی ہے۔
وہ سمی بلوچ جو ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی ہے
وہ سمی بلوچ جو بیمار ہو ئی تھی اور ڈاکٹر دین محمد اسے کوئٹہ کے اسپتال میں چھوڑ گئے یہ کہہ کر کہ
،،میں لوٹ آؤں گا!،،
اور دس سال ہوگئے ڈاکٹر دین محمد نہیں لوٹے
وہ سمی بلوچ جس کا بچپن میں گلا خراب تھا، اب راہ تکتے تکتے اس کے نین دکھنے لگے ہیں
وہ سمی بلوچ جو کل بھی اپنے بابا کی منتظر تھی جو آج بھی اپنے بابا کی منتظر ہے!
وہ سمی بلوچ جو اس وقت اسکولی نظمیں یاد کیا کرتی تھی پر اب اس پر شاعری آیات کی طرح اُترتی ہے
پر وہ نہیں لکھتی!
وہ سمی بلوچ جو کل بھی اکیلی تھی جو آج بھی اکیلی ہے
وہ سمی بلوچ جس کے معصوم کاندھوں پر وہ بوجھ آن پڑا جس کا بار نظر نہیں آتا پر جس بار کے سبب کاندھے بھی سیدھے نہیں ہو تے۔
وہ سمی بلوچ جسے معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کی زندگی دس سال بعد لطیف کی کہی یہ لائن بن جائیگی کہ
،،ادی کا ایندی،چھپر مون سنگ تھیو!،،
وہ نہیں جانتی
وہ نہیں جانتی
وہ نہیں جانتی!
پر لطیف کی یہ بات سمی بلوچ کے کردارکے لیے ہی ہے کہ،،ادی کا ایندی، چھپر مون سنگ تھیو!،،
لطیف کی اس بات کو اگر اردو کا پہرن اُھڑیا جائے تو شاید یہ بات ہی قلم کی نوک سے نکل سکتی ہے کہ
،،سکھیو کیا تم میں سے کوئی ساتھ چلے گا
اب تو پتھروں سے رشتہ جُڑا ہے!،،
اگر اس بات کو بلوچی لباس میں پیش کیا جائے تو پھر کیا بنے گا؟
،،دلءَ جیِڑت وتی ،کاینت سانگبند اِدا!،،
جی ہاں سمی سسئی ہے،اور اس کا ناطہ پتھروں سے جُڑا ہے،سمی اپنی سکھیوں سے پوچھ بھی رہی ہے کہ اس کا ناطہ پتھروں سے جُڑ گیا ہے کیا کوئی میرے ساتھ آئیگی؟

مجھے نہیں معلوم کہ سمی کی سکھیاں اسے کیا جواب دے رہی ہیں؟ وہ سمی کے ساتھ چل رہی ہیں یا نہیں؟ وہ سمی کے ساتھ جائیں گی یا نہیں، سمی مسافر ہے اور پتھروں کا ساتھ تو سمی کے ساتھ رہے گا، ہی

وہ پتھر بھلے سمی کے لیے اور کچھ نہ کر پائیں، وہ پتھر دکھی سمی کے ساتھ نہ چل پائیں، بھلے وہ پتھر سمی کے بابا پنہوں ڈاکٹر دین محمد کو نہ تلاشیں پر وہ پتھر سمی کی دل جوئی تو کر سکتے ہیں بلکل ایسے جیسے ان پتھروں نے سسئی کی دل جوئی کی تھی
کہنے کو سب کچھ بدل گیا ہے
پر دل کی آنکھوں سے دیکھنے پر کچھ نہیں بدلا
آج سے کئی سو سال پہلے بھی پنہوں گم تھا
وہی پنہوں آج بھی گم ہے
آج سے کئی سو سال پہلے بھی سسئی اپنے پنہوں کو تلاش رہی تھی
وہ سسئی آج بھی پنہوں کو تلاش رہی ہے
کل بھی بے جان پتھر راستے میں بھٹکتی سسئی سے پوچھ رہے تھے ہم کیا کریں؟
آج بھی بھٹکتی سسئی سے پتھر پوچھ رہے ہیں ہم کیا کریں؟
تو پھر اتنے سال گذر جانے پر کیا بدلا ہے؟
سسئی بھی وہی!
پنہوں بھی وہی
سفر بھی وہی
تلاش بھی وہی
پتھر بھی وہی
اور پتھروں کے سوال بھی وہی کہ
،،ہم کیا کریں؟!،،
یہ پتھر کچھ بھی نہ کریں
یہ پتھر بس وہی کچھ کریں جو سسئی کے لیے کیا تھا!

کئی سال پہلے یہ پتھر سسئی کے ساتھ پنہوں کے لیے روئے تھے، آج یہ پتھر کئی سال بعد سمی کے ساتھ ڈاکٹر دین محمد کے لیے روئیں
پنہوں تو واپس آنے کا کچھ نہیں کہہ گیا تھا، پر ڈاکٹر دین محمد تو بیمار سمی کو دیکھ کر کہہ گئے تھے کہ
،،میں لوٹ آؤں گا!،،
اور پھر وہ نہیں لوٹے،
ہوسکتا ہے کہ وہ پتھر سسئی کے ساتھ پنہوں کے لیے تھوڑا سا روئے ہوں
پر سمی کے ساتھ ڈاکٹر دین محمد کے لیے ایسا نہیں ہوگا
اگر پتھر روئیں تو اتنا روئیں کہ پتھروں کے دل بھی نرم پڑ جائیں
پتھروں کو بھی سسکیاں لگ جائیں
پتھروں کے گال بھی گیلے ہو جائیں!
پتھروں کو بھی ہچکیاں لگ جائیں
اور بہت دور لطیف سسئی کی زبانی ان پتھروں سے بار بار کہہ رہا ہو
،،ڈونگر مون سین روئے، کڈھی پار پنہوں جا!،،
اور پھر جب سسئی کے حصے کے پتھر رو رو کر بس کریں تو
لطیف ان پتھروں سے سمی کی زبانی میں کہہ رہا ہوں کہ
،،ڈونگر مون سین روئے،کڈھی پار دین محمد جا!،،

کوئی چاہے یا نہ چاہے، کوئی سمجھے یا نہ سمجھے، کوئی جانے یا نہ جانے پر ہم جانتے ہیں ہمیں خبر ہے کہ سمی کا رشتہ اب پتھروں سے جُڑ گیا ہے۔ وہ کیوں؟ وہ اس لیے کہ سمی مسافر بنی ہے اور یہ سفر اور مسافتیں کوئی آج کی نہیں ہیں اس سفر کو اور مسافتوں کو سمی دس سالوں سے جھیل رہی ہے۔ سمی کے معصوم کندھوں پر بار گراں ایسے گرا ہے جیسے یسوع کے کاندھوں پر بھا ری صلیب!
یسوع بھی مصلوب تھا
اور آج یسوع جیسی سمی بھی مصلوب ہے
جب سمی سفر میں ہوگئی مسافتیں اس کا مقدر ٹھہریں گیں تو اس کا واسطہ ان پتھروں سے ضرور پڑے گا
جو بے جان ہوتے ہیں
پر سنتے کانوں والا دل رکھتے ہیں
اس وقت سمی بلوچ کی زندگی ہو بہ ہو ایسی ہو چلی ہے کہ
،،ادی کا ایندی چھپر مون سنگ تھیو
لائیندیس لگن کھے ملیراں مہندی
وِندر آؤن ویندی،آری جام اجھو کرے!،،
اگر لطیف کی اس بات کو بلوچی کا لبادہ اُوڑھا جائے تو
،،دلءَ جیِڑت وتی،کاینت سنگبند اِدا
ھِنی ملیر ءِ من ،دستءُ پاداں رَج آں
،،واجہ،،باہوٹ کنت ،وندرءَ کہ رساں!،،
وہ سمی جو کبھی نہیں روئی اب اس کے نین بس ہی نہیں کرتے
سمی بلوچ دکھی ہے
وہ کیوں رو تی ہے؟
اس لیے کہ پنہوں جیسا ڈاکٹر دین محمد اسے مسافر بنا گیا ہے!
اور یہ سفر اسے کس نے دیا ہے؟
تم بھی جانتے ہو
میں بھی جانتا ہوں!
اور ہم لطیف کی زبانی سمی بلوچ کی یہ صدا بھی سن رہے ہیں کہ
،،ادی کا ایندی چھپر مون سنگ تھیو!،،
یا یہ صدا کہ
،،دلءَ جیِڑت وتی،کاینت سنگبند اِدا!،،
پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ
،،سمی بلوچ کیوں روتی ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔