سردار اختر جان مینگل! میں آپ سے کچھ نہیں پوچھتا – محمد خان داؤد

270

سردار اختر جان مینگل! میں آپ سے کچھ نہیں پوچھتا

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

سردار اختر جان اسمبلی فلور پر آپ نے برمش کی تصویر لہرا کر دھواں دھار تقریر کی تھی، جس سے اداس بلوچستان نے آپ کی طرف مڑ کر دیکھا تھا اور اسے یہ خیال گھر کر گیا تھا کہ
،،ائیان رُین مان رڑ اچے پئی اچے
متان سمجھیں کہ مُئا مور سارا!
،،ابھی بھی صحرا سے صدائے مور آرہی ہے
یہ مت جاننا کہ سب مور مرگئے!،،

اس وقت دکھی بلوچستان نے آپ کی طرف دیکھا تھا اور دکھی بلوچستان کے نینوں سے اشک رواں ہو گئے تھے۔
پر اب سردار اختر جان مینگل! اسمبلی فلور پر کس کی تصویر لہراؤ گے
اور اپنے بھاشن سناؤ گے؟
لہولہان ہو تے حیات بلوچ کی؟
بے بس، لاچار، مجبور باپ کی
منتیں کرتی، روتی، چیختی، چلاتی، بی بی حاجرہ کی مانند یہاں وہاں دوڑتی، یا پھر آخر میں اپنی ساری کمائی لٹ جانے والی اس ماں کی تصویر دکھاؤ گے جو اب اپنا ہوش بھی کھو چکی ہے؟ یا اس آئی جی ایف سی کی جو بادشاہوں کی مانند آیا اور بادشاہو ں کی طرح لوٹ گیا۔ یا اس سفاک ایف سی اہلکار کی جس کی بندوق میں جتنی بھی گولیاں تھیں وہ حیات مرزا کے جسم میں اتر گئیں؟ یا ان ہاتھوں کی جو خدا کی طرف بلند ہو رہے ہیں؟

اور خدا کی ایسی حالت ہے جسے دیکھ کر مرشد جون یاد آتا ہے جس نے لکھا تھا کہ
،،کیا خدا بھی مر گیا؟!!!!
انا للہ وانا الیہ راجعون!،،
یا اس خون کی جو آج چھ دن ہوگئے ہیں پر پھر بھی خشک نہیں ہو رہا
ہا ان کپڑوں کی جو حیات کے جسم پر پہنے ہوئے تھے اور وہ کپڑے بارود میں جل کر خون سے رنگے گئے
یا اس نخلستان کی جس کی ساری کھجوریں اب بھی ماتم کر رہی ہیں
یا اس پین کی جو دنیا کا سب سے خطر ناک ہتھیار ہے
یا اس قبر کی جو بلوچ دھرتی پہ اک بارِ گراں بن گئی ہے؟
یا کیچ کے اداس سورج کی، یا تربت کے عذاب دن کی
یا ماتم کرتی رات کی؟

یا اس ماں کی جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے بازارِ یوسف لُٹتے دیکھا پر بھی اسے یقین نہیں آتا کہ اس کی بھی کمائی لُٹی جا چکی ہے؟

یا ان بہنوں کی جو کبھی خود روتی ہیں کبھی اپنی ماں کو خاموش کرانے کی کوشش کرتی ہیں، اور جب ماں خاموش ہو جاتی ہے تو پھر آپ رونے لگتی ہیں، اور جب خود خاموش ہوجاتی ہیں تو پھر یاد آگ بن کر اس ماں کا کلیجہ جلانے لگتی ہے، جو ایسی لُٹی ہے جس کے لیے بلھے شاہ نے کہا تھا کہ
،،میرا لُٹیا شہر لہور!،،
اختر جان مینگل! شہر تو پھر آباد ہو جاتے ہیں، پر لُٹی مائیں کبھی آباد نہیں ہوتیں
شہروں میں پھر برج بن جاتے ہیں
ماؤں کی ماتم میں گئی بینائی نہیں لوٹتی
شہروں میں پھر عمارتیں بن جاتی ہیں
ماؤں کی ماری نیندیں واپس نہیں آتیں
شہروں میں پھرروشنائی لوٹ آتی ہے
ماؤں کے دماغی توازن نہیں لوٹتے
شہروں میں پھر چہل پہل شروع ہو جاتی ہے چاہیے ان شہروں میں ایٹم بم ہی کیوں نہ گرا ہو
ویسے نہیں تو عبرت دیکھنے تماشہ دیکھنے
اہل کرم لوٹ آتے ہیں
پر وہ مائیں تو خود تماشہ بن جاتی ہیں

جن ماؤں کو براہ راست تو کوئی گولی نہیں لگی ہوتی پر بھونکتی بندوقوں سے سب نکلی گولیاں ان ہی ماؤں سے ہوتے ہو ئے جاتی ہیں، یہ گولیاں ماؤں کے بچوں کے جسموں کو گھائل کرتی ہیں پر یہی گولیاں ان ماؤں کے روحوں کو مار کر جسموں میں پیوست ہو جاتی ہیں۔
تو سردار اختر جان مینگل! میں آپ سے کچھ نہیں پوچھ رہا
آپ ہی بتائیں آپ اسمبلی فلور پر اپنے ہاتھوں میں کون سی تصویر لیے بھاشن دیں گے؟
اور آپ کا بھاشن لکھا جاچکا ہے یا ابھی لکھا جائیگا
اگر لکھا جاچکا ہے تو کیا آپ نے اس بھاشن کی تیاری پریکٹس کی ہوئی ہے؟ کہیں آپ کی شائیستہ اردو میں گلابی اردو نہ شامل ہو جائے
اور آپ کی ساری کہی کرائی بات اپنا اثر کھوبیٹھے!
مجھے نہیں معلوم کہ حیات بلوچ کے ناحق قتل پر آپ کیا سوچ رہے ہیں؟پر اس ماں کی ایسی حالت ہے جس حالت کے لیے غالب نے فرمایا تھا کہ
،،جلا ہے جسم تو دل بھی جل گیا ہوگا
کُریدتے کیا ہو،جستجو کیا ہے؟!،،

سردار اختر جان مینگل! جہاں تمہیں ہونا چاہیے تھا، آج وہ وردی والا موجود ہے حالاںکہ اب اسے اخلاقاً وردی اتار دینی چاہیے۔ پر نہ تو اس نے وردی اتاری ہے اور نہ ہی اس ماں کا وہ زخم بھرا ہے جو ابھی ابھی تو اس ماں کو رسا ہے!

سردار اختر جان مینگل! تم وہاں نظر نہیں آتے؟ اہلیانِ بلوچستان پوچھ رہا ہے کہ تم وہاں کیوں نظر نہیں آتے؟ کیا اب آپ کا کام بس یہ ہے کہ سندھ سے لیکر پنجاب اور پختون خوا تک کوئی بھی بوڑھا سردار مرجائے اور اس کا ادھیڑ عمر کا جوان بیٹا اس بوڑھے سردار کی جگہ سنبھالے اور اپنے سر پر دستار بندی کروائے تو تم بھی اس کی پگڑی میں ایک گھانٹ ڈال آؤ۔
سردار ختر جان مینگل کیا اب سب آپ کا یہ کام ہے
اگر آپ کا یہی کام ہے تو یہ کام تو میں بھی کرتا ہوں

تو پھر آپ اپنے اس دعوے سے دستبردار ہو جائیں کہ آپ بلوچستان کے عظیم رفوگر ہیں اور آپ بلوچستان کے دکھ دردوں کی دوا کرتے ہیں اگر آپ بلوچستان کے عظیم رفو گیر ہیں تو آپ اس ماں کا دل رفو کر دیجیے جس ماں کا دل اس ریا ست نے چھلنی کر دیا ہے۔

سردار اختر جان مینگل آج جب تم اس بوڑھے باپ کے پہلو میں نہیں تو بلوچستان تم سے اتنا تو پوچھ سکتا ہے نہ کہ
،،کہا تم نے کہ،،کیوں ہو غیر کے ملنے میں رُسوائی،،
بجا کہتے ہو،سچ کہتے ہو،پھر کہیو، کہ،ہاں،،کیوں ہوا!،،
پر سردار اختر جان مینگل یہ تو بتا دیں کہ
اسمبلی فلور پر اپنے ہاتھوں میں کس کی تصویر لہراؤ گے
لہو لہان ہوتے حیات بلوچ کی؟
بے بس،لاچار،مجبور باپ کی
منتیں کرتی، روتی، چیختی، چلا تی، بی بی حاجرہ کی مانند یہاں وہاں دوڑتی، یا پھر آخر میں اپنی ساری کمائی لٹ جانے والی اس ماں کی تصویر دکھاؤ گے جو اب اپنا ہوش بھی کھو چکی ہے؟
یا اس آئی جی ایف سی کی جو بادشاہوں کی مانند آیا اور بادشاہو ں کی طرح لوٹ گیا؟
یا اس سفاک ایف سی اہلکار کی جس کی بندوق میں جتنی بھی گولیاں تھیں وہ حیات مرزا کے جسم میں اتر گئیں
یا ان ہاتھوں کی جو خدا کی طرف بلند ہو رہے ہیں؟
اور خدا کی ایسی حالت ہے جسے دیکھ کر مرشد جون یاد آتا ہے جس نے لکھا تھا کہ
،،کیا خدا بھی مر گیا؟
انعلوانا راجعون!،،
یا اس خون کی جو آج چھ دن ہوگئے ہیں پر پھر بھی خشک نہیں ہو رہا
یا ان کپڑوں کی جو حیات کے جسم میں پہنے ہوئے تھے اور وہ کپڑے بارود میں جل کر خون سے رنگے گئے
یا اس نخلستان کی جس کی ساری کھجوریں اب بھی ماتم کر رہی ہیں
یا اس پین کی جو دنیا کا سب سے خطر ناک ہتھیار ہے
یا اس قبر کی جو بلوچ دھرتی پہ اک بارِ گراں بن گئی ہے!
یا کیچ کے اداس سورج کی، یا تربت کے عذاب دن کی
یا ماتم کرتی رات کی!
سردار صاحب میں آپ سے کچھ نہیں پوچھ رہا
بلوچستان پوچھ رہا ہے
بلوچستان
بلوچستان!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔