داستانِ حیات – سمیرا بلوچ

856

داستانِ حیات

تحریر: سمیرا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بھلا ہو سوشل میڈیا کا جسکے توسط سے ہمیں بلوچستان کی خبریں ملتی ہیں۔ سوشل میڈیا کھولا تو ٹوئیٹر پر دل کو جھنجھوڑنے والی خبر پڑھنے کو ملی۔ حیات بلوچ ضلع تربت کے رہائشی تھے۔ وہ چار بہن بھائی تھے، جن میں حیات بلوچ کا نمبر دوسرا تھا۔ وہ کراچی میں شعبہ فزیالوجی میں بی ایس فائنل ایئر کے طالب علم تھے۔ کورونا وبا کی وجہ سے چھٹیوں میں اپنے آبائی علاقے تربت میں تھے۔ اپنے والد کے ساتھ انکے کجھور کے باغ میں کام کرتا تھا۔ وہ ایک انسان دوست معصوم بے ضرر انسان تھا۔ لیکن 13 اگست کے دن جب وہ اپنے والد کے ساتھ باغ میں کام میں مشغول تھا۔ تو 11 بجے کے وقت FC والے اس کے باغ میں آۓ اور حیات کو گھسیٹتے ہوئے باغ سے باہر لے گئے۔ وہیں اسکے والد کے سامنے اسکے ہاتھ اور پیروں کو باندھ کر اس پر تشدد شروع کیا گیا، بغیر کسی جرم کے، بغیر کسی ثبوت کے، بغیر کسی عدالت میں پیش کرنے اور بغیر کسی جج کے فیصلے کے یہ ساری ذمہ داریاں FC کے ایک اہلکار نے پلک جھپکتے ہی وہیں پر ادا کر دیا۔ اسی نے عدالت اور جج بن کر وہیں پر اس بے گناہ نوجوان حیات بلوچ کو سزا موت دے دی۔ حیات کے والد نے FCوالوں کے سامنے ہاتھ پیر جوڑے، منتیں کی لیکن حیات کے والد کے سامنے انکے نوجوان بیٹے کو آٹھ گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔

ماں اور باپ وہ مخلوق ہوتی ہے، جو اپنے اولاد پر گرم ہوا کے چلنے کو بھی روادار نہیں ہوتیں۔ وہ اپنے بچے پر کسی کی بلند آواز کو بھی برداشت نہیں کر پاتے ہیں۔ حیات کے والدین کے سامنے انکے لاڈلے بیٹے کو اذیت دے کر تڑپتے ہوئے جان سے مارنا، اس کے تصور سے ہی دل کانپ جاتا ہے کہ کیسا درد ناک منظر ہوا ہو گا۔ حیات کا درد اور بے بس آوازیں، حیات کے ماں باپ کے کانوں میں عمر بھر گونجیں گی۔ وہ اذیت بھرا منظر عمر بھر حیات کے ماں باپ کو سونے نہیں دے گی۔

ظالم نے وہ ظلم کیا کہ اسکا کوئی مداوا نہیں ہے۔ بلوچستان میں بلوچوں کے ساتھ ظلم کی یہ داستانیں نئی نہیں ہیں۔ کچھ مہینوں سے بلوچستان کے خاص کر تربت کے علاقے میں پاکستانی فوج ظلم کی نئی تاریخ رقم کررہا ہے۔ بی بی کلثوم ہو یا ناز بی بی اور اب حیات بلوچ کو انکے اہل خانہ کے سامنے بےدردی سے شہید کر دینا، اذیت دینے کا نیا طریقہ کار دشمن فوج نے اپنایا ہے۔ ظالم، ظلم کی ساری حدیں پار کر رہا ہے۔

بلوچ قوم کی بے بسی اور لاچارگی تو دیکھو، کہ قاتل ریاست سے انصاف مانگ رہا ہے۔ برمش واقعے کے بعد پوری بلوچ قوم نے برمش کو انصاف دلانے کے لیے جسطرح یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور برمش کو انصاف دلانے کے لیے گھروں سےنکلے ،لیکن اسکا حاصل کیا ہوا؟ لا حاصل ہی رہا ۔ کیا کبھی سنا ہے خود قاتل ، مقتول کو انصاف دے؟

حالیہ دنوں ایک بلوچ صحافی انور کیھتران کو بھی شہید کیا گیا، اسکے لیئے بھی آواز اٹھائی گئی، صوبائی وزیر عبدالرحمان کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کیا گیا۔ لیکن وہ بھی صرف ایک فائل کی شکل میں بند کیس بن گیا۔ قاتل آزادی اور خوشی سے اپنی زندگی گذآررہے ہیں۔ ناانصافی اور ظلم کا دوسرا نام پاکستان ہے۔ اس میں انصاف ملنا صرف خواب ہے۔

بلوچ قوم کے نوجوان، خاص کر پڑھے لکھے نوجوانوں کو ، بلوچ عورتوں، بلوچ قوم کے بزرگوں اور بچیوں کو گھروں میں گھس کر دشمن فوج شہید کر رہا ہے۔ دشمن کی بندوق کو بلوچوں کا خون لگ چکا ہے، اور وہ گمراہی میں جنگی تقاضوں کو بھی بھول چکا ہے۔ بلوچ قوم کو اب انصاف دلانے کیلئے بلوچ قوم کو یکجہتی کی ضرورت ہے۔ ظلم کے خلاف بلوچ جنگ کو صرف اور صرف یکجہتی سے ہی جیت سکتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔