خلیل ایڈوکیٹ کے نام برمش کا ایک کھلا خط
تحریر: میر خان کولانچی
دی بلوچستان پوسٹ
خلیل جان مجھے معلوم ہیکہ آپ میری ماں ملک ناز کے اصل قاتل سمیت سینکڑوں بلوچوں کے قاتل و اغوا کار اور انکی تشدد زدہ مسخ شدہ لاشوں کی پھینکنے والے نہ صرف ایک قاتل بلکہ میرے نزدیک اس کے لیے وحشی و درندہ جیسے الٖفاظ کے معنی بھی معنوی اعتبار سے کم ہونگے، ایک ایسے شخص یعنی سمیر سبزل کا کیس لڑ رہے ہیں، مگر پر بھی میں آپ کو ایک امید کے ساتھ یہ خط لکھ رہی ہوں۔
امید ہے جب آپ کو یہ خط ملے، آپ اپنے گھر میں خیریت سے ہونگے۔ آپکے میری ہم عمر اولاد آپکے اور اپنی ماں کے ساتھ کھیل رہی ہونگی، مگر ایڈوکیٹ صاحب میں ۲۶ مئی سے اپنی ماں ملک ناز کا انتظار کررہی ہوں،۲۶ مئ کی صبح جب مجھے زخمی حالت میں کراچی لے جایا جارہا تھا تو میری زبان میں بس ایک بات تھی ،،اماں ، اماں کجیں ، اماں ءَ رویں ، اماں ءَ بیارے۔
خلیل ! دوران علاج مجھے اتنا بازو اور شولڈر کی درد نے اذیت نہیں دیا، جتنا اذیت مجھے میری ماں کی کمی و دوری سے ہورہی تھی، دوران علاج مجھے کھلونے دیئے گئے، تحائف دیئے گئے، وہی کھلونے ماضی میں جن کی حصول کے لیے میں اپنی ماں کے پاس روتی تھی مگر اُس وقت یہ کھلونے میرے کسی درد کے دوا نہیں تھے ، مجھے ضرورت تھی محض اپنی ماں ملک ناز کی۔
خلیل ! اسپتال میں، میں جب بھی اپنی ماں کے متعلق پوچھتی تو مجھے بتایا جاتا کہ آپکی ماں گھر میں ہے ، وہ آئے گی ، ہم آپ کو لیکرآپکی ماں کے پاس جائیں گے، ایسی باتوں سے مجھے بہلا کر میرا علاج کیا گیا ، جب مجھے واپس گھر لایا گیا تب بھی میرا سوال یہی تھا کہ ؍ اماں کجیں ؟
کبھی مجھے کہا جاتا ہے کہ قصر ءَ شتگ کئیتیں؍ کبھی کہا جاتا ہیکہ مزنیں اماں ءِ تانی لوگا ایں کئیتیں ،
خلیل ! آپ کو کیا بتاوں ،اس عید کو میں نے اپنی امی ملک ناز کو بہت یاد کیا اور بہت سوال و اصرار بھی کیا کہ ، گڈا اما کدی کئیت ایں، ،خلیل عید پر سب خوش ہوںگے، مگر بصیرہ جب مجھے تیار کررہی تھی تو اس کے آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، بصیرہ کو دیکھ کر روبینہ بھی رو پڑی ۔ سب میری امی کا نام لیکر رو رہے تھے، میں نے پوچھ لیا کہ , اماں زانا کجا شتگ کہ شما درست گریوگا ءِ ،مجھے پر جواب ملا کہ ، اماں کئیتیں۔
مگر خلیل! میں جانتا ہوں کہ، اماں نی ھچبر نیئیتیں ، کیونکہ آپ جس وحشی ، قاتل ، درندے ، ہزاروں بلوچوں کی قاتل ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ سمیر سبزل کا کیس لڑرہے ہو ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں اپنی ماں کی گود میں تھی اسی سمیر سبزل کے کارندوں نے میری ماں کو میری آنکھوں کے سامنے شہید اور مجھے شدید زخمی کیا۔
میری ماں تو بلوچ روایات کو زندہ کرتے ہوئے، مزاحمت کا استعارہ، بن کر بلوچ تاریخ و تحریک میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئی مگر میں ملک نازکی ممتا سے یتیم ہوکر تمام بلوچ قوم و انسانیت کی بیٹی بن گئی۔ مگر میری آنکھوں کے سامنے میری ماں کا قتل تا ابد میری شعور ، لا شعور و تحت و شعور کا حصہ رہے گا۔
اسی طرح انہی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے شہید کلثوم کو انکے بچوں کے سامنے ڈبح کیا کہ کلثوم کی باقی قاتل آج بھی سر عام گھوم رہے ہیں۔
خلیل ! تھوڑا آنکھ بند کرکے اسی لمحے شہید کلثوم کی آہ و بقا اور اس کے بچوں کی چیخوں کو تصور کرو، جب یہ ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے معصوم بچوں کے سامنے اسکی ماں کو ذبح کررہے تھے۔
مجھ پر یا کلثوم کے بچوں پر یا دیگر ان ہزاروں بلوچ بچوں پر اس کے نفسیاتی اثرات کیا ہونگے کہ آرمی یا انکی ڈیتھ اسکواڈ نے انکے آنکھوں کے سامنے انکی والدین کو شہید کیا؟
خلیل آپکو پتہ ہےمجھ کو سب سے سے زیادہ کس بات نے دکھ پہنچایا؟
مجھ کو سب سے زیادہ آپ کے اس جواب نے دکھ پہنچایا کہ ہم نے بلوچی روایات کی پیروی کرکے سوشل میڈیا میں آنے سے پہلے آپ کو ایک نپر (قاصد ) بیجھا مگر آپکا جواب یہی تھا کہ سمیر کا نام ایف آئی آر میں نہیں ہے اس لیے میں اسکا کیس لڑرہا ہوں۔
خلیل ایمانداری سے کہو کیا آپ کو معلوم نہیں ہیکہ میری ماں کا قاتل اور مجھے زخمی کرنے والے ایم آئی اور آرمی کے ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ سمیر سبزل کے کارندے تھے؟
خلیل ! اپنے، میری ہم عمر اولاد کی سر کی قسم کھا کر کہو کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ سمیرایک ڈیتھ اسکواڈ چلا رہے ہیں؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ سمیر سبزل معصوم و بے گناہ بلوچوں کی اغوا ، تشدد اور مسخ شدہ لاشوں کی پھینکنے میں آرمی کا شریک کار ہیں؟ کیا سمیر نے آبسر سمیت تربت کے تمام شہریوں کا زندگی اجیرن نہیں کیا ہے؟
تربت شہر میں گذشتہ تین سالوں میں گھروں کی ڈکیتی و دیگر چوری کے بیس سے زائد واقعات رونما ہوئے ہیں کہ جن میں چھ سے زائد واقعات میں سمیر سبزل اور اسکے ڈیتھ اسکواڈ کے بندوں کا واضح ہاتھ تھا اور ان ڈاکہ زنی حتیٰ کہ میری ماں کے قتل کے خلاف بھی آپ احتجاج میں پیش پیش تھے اور آپ ہی نے بھی یہی کہا تھا کہ ان چوروں اور قاتلوں کا پشت پناہ آرمی و خفیہ ایجنسیاں ہیں اور آج آپ ہی کی طرف سے اسی ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ کی وکالت نہ خالی میرے لیے نہیں بلکہ کسی بھی ذی شعور فرد کے لیے ناقابل فہم ہے۔
میرے چچا کے مانند خلیل جان، مجھے یقین ہیکہ آپ کو بدنام زمانہ آرمی کے ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ سمیر سبزل کے متعلق سب کچھ پتہ ہے اور آپ اپنی ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ کر سمیر کی وکالت سے دستبردار ہونگے اور اپنے سماجی و شعوری رتبے کی لاج رکھ کر بلوچ تاریخ کی صفحوں میں ہمیشہ کے لیے سُرخ رو ہونگے اور باقی کرپٹ سرکاری افسران جیسا کہ جیلر یٰسین و دیگر ہیں ان سے اپنے شعوری امتیاز کو باقی رکھیں گے۔
خلیل! اگر جیلر یٰسین سنٹرل جیل تربت میں سمیر سبزل کو ایئر کنڈیشنڈ روم، شراب ، سگریٹ اور دیگر لگژری آسائشیں پیسے کی عوض ، لڑکیوں کی لالچ اور ایم آئی کی حکم پر فراہم کررہے ہیں، مگر یٰسین سے ہمیں کوئی گلہ نہیں کہ وہ ایک انتہائی گرے ہوئے کردار کے مالک اور عورتوں کے رسیا انسان ہیں حتٰی کہ یٰسین نے انہی عورتوں کی چکر میں اپنی بیوی بچوں کی زندگی جہنم کیا ہوا ہے، یسین کی گراوٹ کی حد ہی نہیں میں تو اسکو بلوچ تک کہنا بھی بلوچ قوم کی توہین سمجتھی ہوں، وہ تو قیدیوں کی سہولیات فراہم کرنے کے عوض انکے بے کس و لاچار خواتین کو بلیک میل کرکے انکو جنسی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں ، اہل علاقہ و یٰسین کی فیملی و سسرال کو سب کچھ پتہ ہے میں نام نہ لیکر یٰسین کے مکروہ چہرے کے بارے میں اتنا بتاتا چلوں کہ یٰسین کے پاس ضمیر اور شریر بیچنے والےخواتین کا ایک نیٹورک ہے، یہ خواتین اس حد تک گرے ہیں کہ کم عمر جوان بچیوں کو یٰسین کے پاس بلیک میل کرکے یا ورغلا کر لاتی ہیں اور یٰسیں انہیں آگے فوجی و سول افسروں کو سپلائی کرتا ہے۔
خلیل یٰسین کا چہرہ تو اس حد تک سیاہ ہے اور آج یٰسین جو کچھ بھی کررہا ہے وہ کل ، وقت اور بلوچ قوم کے سامنے جوابدہ ہوگا۔
آپکے سلامتی کیلئے دعاگو
برمش
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔