بلوچ مائیں اس لیئے بچے جنتی ہیں کہ وہ مارے جائیں؟
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
کیا وہ دس گولیاں بس اس حیات کو لگیں، جن گولیوں نے حیات کی جان لے لی؟
نہیں یہ ایسا سوال ہے جس پر اہل دانش بہت سوچے اور پھر اس بلوچستان کو بتائے کہ وہ دس گولیاں کسے لگیں؟ جن دس گولیوں سے حیات اب حیات نہیں اور وہ جاتے ہوئے تربت کے نخلستان کو خون آلود کرگیا ہے۔ اہل خرد یہ بھی سوچے کہ یہ دس گولیاں کتنی رفتار سے گئیں اور کہاں کہاں سے ہو تے کہاں کہاں ٹہریں؟ اہلِ عقل یہ بھی بتائے کہ کیا ان دس گولیوں کی گھن گھرج بس تربت تک رہی یا وہ دس گولیاں بلوچستان کے تربت سے ہوتے ہوئے پورے ملک کو سوگوار کر گئیں؟
اہلِ علم یہ بھی بتائیں کہ وہ دس گولیاں بس حیات کے جسم سے آر پار ہوئی ہیں
یا وہ دس گولیاں بندوق کی نال سے جاتے جا تے کسی اور کو بھی گھائل کر گئی ہیں؟
اہلِ عقل یہ بھی بتائے کہ جب بھوکتی بندوقوں سے چیختی گولیاں نکلتی ہیں تو وہ بس ان بھائیوں کو مارتی ہے، جو بھائی ان بندوقوں کی زد میں ہوتے ہیں یا ان بھوکتی بندوقوں کی چیختی گولیوں سے وہ بہنیں بھی ماری جاتی ہیں جو جاتے بھائیوں کا اس امید سے انتظار کرتی ہیں کہ جب وہ لوٹیں گے تو وہ ان بھائیوں سے بہت لاڈ کریں گے پر جب بھائی لوٹتے ہیں تو ابھی وہ بہنیں لاڈ نہیں کرتے کہ دوسری طرف ان کے کفن سیئے جاتے ہیں۔
کتابوں کے مصنف یہ بھی بتائیں کہ بھوکتی بندوقیں بس بلوچستان وادی میں ہی کیوں ٹیسٹ کی جاتی ہیں؟
کتابوں کے عشاق یہ بھی بتائیں کہ ان چیختی گولیوں کے لیے بلوچ بیٹوں کے ہی سینے کیوں پیش کیے جاتے ہیں؟
میرا یہ سوال اہلِ قلم سے ہے، میرا یہ سوال صاحب کتاب سے ہے کہ
وہ اہل قلم جنہوں نے بہت کچھ لکھا ہے یا کچھ بھی نہیں
وہ صاحب کتاب جنہوں نے درجنوں کتابیں لکھی ہیں یا بس ایک کہ
کیا بلوچ مائیں بیٹے اس لیے جنتی ہیں کہ ریاست ان بلوچ ماؤں کے بیٹوں پر چیختی گولیوں اور بھوکتی بندوقوں کو دن دہاڑے اور آدھی رات کو ٹیسٹ کرے کہ چیختی گولیاں کسے گھائل کرتی ہیں کہ نہیں اور بندوق کی نال سے نکلتی گولی کسی کے سینے سے آر پار ہو تی ہیں کہ نہیں؟
میرا یہ سوال بھی عالموں سے ہے جو سرکاری وظیفہ کھا تے ہیں اور اندھے،گونگے اور بہرے بنے بیٹھے ہیں کہ
،،بلوچ مائیں اپنے بچے تعلیمی اداروں میں اس لیے بھیجتی ہیں کہ جب وہ وہاں سے لوٹیں تو بندوق بردار انہیں ایسے تلاشتے پھریں کہ جیسے شکاری اپنا شکار تلاشتا ہے
پر بلوچ ماؤں کے بیٹے کوئی شکار تو نہیں
انہیں وہ مائیں جنتی ہیں ایسے ہی جیسے حوا نے کئی بیٹے جنے
جیسے مریم نے عیسیٰ جنا
اور حوا کے کئی بیٹے اور مریم کا اک عیسیٰ کوئی ایک دن میں بڑے نہیں ہوئے
ماؤں نے مصیبتیں اور دکھ دیکھے جب جا کہ یرو شلم کا بیٹا عیسیٰ بنا اور
اور آج بھی کئی حوائیں بہت سا دکھ جھیلتی ہیں جب جا کہ کوئی حیات، حیات کو پہنچتا ہے
پر بندوق، بندوق کی نال، چیختی گولیاں، حکم اور نفرت یہ نہیں جانتے کہ حیات، حیات کو کیسے پہنچا؟ پھر کئی گولیاں چلتی ہیں اور حیات، میں حیاتی نہیں رہتی وہ یاد بن جاتا ہے اور آنسو بن کر اس ماں کی آنکھوں سے مسلسل بہتا رہتا ہے جو ماں تو یہ بھی نہیں جانتی کہ اسے ایف سی نے قتل کیا یا خاکی وردی نے وہ معصوم ماں تو کچھ بھی نہیں جانتی، وہ کھلی آنکھوں سے بس یہ دیکھ رہی ہوتی ہے کہ کیا کچھ ہو رہا ہے اور سفید کفن کو لال کیے حیات، جیسے نوجوان پرانے قبرستانوں میں نئی قبر کا اضافہ کر جاتے ہیں۔
پھر کہیں سے کوئی آواز نہیں آتی
پھر کہیں سے کوئی فر مائش نہیں آتی
پھر بہنوں کے مقدر میں رونا آجاتا ہے
اور ماؤں کے مقدر میں رتجگے
یہی کچھ ہوا ہے تربت کے حیات کے ساتھ، اسے تربت کے نخلستان میں قتل کر دیا گیا ہے
اور تربت میں حیات کی بہنیں ماتم کر رہی ہیں اور ماں کی نیند ماری جا چکی ہے!
حیات کراچی سے اپنی ماں کو ملنے گیا تھا جب کہ اس کی ساری کتابیں کراچی میں موجود ہیں
اب وہ کبھی کراچی کو نہیں لوٹے گا! اب نہ تو اسے کوئی کامریڈ کہے گا اور نہ وہ کسی کو کامریڈ کہہ کر بلائے گا
وہ کسی کامریڈ کے نظر نہ آنے پر فکر مند ہوجایا کرتا تھا
پر اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ کبھی نظر نہیں آئیگا تو پیچھے رہ جانے والے کامریڈ اس کے لیے فکر مند ہوں گے کہ نہیں؟!
اہلِ دانش یہ بھی بتائے کہ وہ دس گولیاں دس گولیاں ہی کیوں تھیں
جب کہ ایک گولی بھی تو انسان کی جان لے سکتی ہے!
تو حیات کے نازک سینے میں دس گولیاں کیوں اتاری گئیں
وہ انسان تھا کوئی پہاڑ تو نہیں کہ وہ دس ہی گولیوں کا بار سہہ جائیگا
نہیں وہ تو بہت شور، اونچی آواز کا شور نہیں سہہ سکتا تھا تو وہ دس گولیوں کو کیسے برداشت کرتا؟
اور وہ مارا گیا!
یہ تو مجھے اہل دانش ہی بتائیں کہ
کیا وہ دس گولیاں بس اس حیات کو لگیں جن گولیوں نے حیات کی جان لے لی؟
جب تک دانشور اس سوال کو حل کریں، آئیں ہم اس ماں سے پوچھیں کہ کیا حیات کو لگنے والی دس گولیاں اسے بھی گھائل کر گئی ہیں؟
ہم نہیں دیکھ پا رہے پر ان گولیوں کی گھن گھرج اب بھی باقی ہے اور وہ دس گولیاں حیات کے جسم سے آر پار ہوکر اس ماں کے جسم میں پیوست ہو گئی ہیں
جو ماں یہ بھی نہیں جانتی کہ ملک کے بڑے شہروں میں پاکستان کی آزادی کا جشن منایا جا رہا ہے
اور ٹی وی چینلوں پر اینکر کتوں کی طرح بھونک رہے ہیں
پاکستان زندہ باد
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔