کوئٹہ میں بلوچ لاپتہ افراد کیلئے احتجاج جاری

119

بلوچستان دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 4020 دن ہوگے، اظہار یکجہتی کرنے والوں میں پنجگور سے سیاسی اور سماجی کارکن رحمت اللہ بلوچ، عبدالکریم بلوچ نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ پاکستانی حکمران عسکری قوت اپنی طاقت کے غرور کے گھمنڈ پر قبضے کو طول دینے کی کوشش میں ہے، اس کی درندگی غیر انسانی اور بے جا نفرت کا اندازہ باآسانی ویرانوں اور گلی کوچوں میں ملنے والی مسخ شدہ لاشوں سے لگایا جاسکتا ہے اس طرح کی غیر انسانی اذیتیں دنیا کے بدنام زمانہ جیلیں گونتاناموبے، بگرام، ابو غریب جیل خانوں یا دوسرے غیر اسلامی ممالک کے اذیت خانوں میں نہیں دی جاتی مگر ہم حکمرانوں سے کوہی شکایت نہیں کرتے بلکہ ہم قبضہ گیر پر ماتم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غیروں اور دشمن سے شکایت کرنا عقل سلیم سے بالاتر ہے کیونکہ وہ دشمن ہے وہ آپ کو مارتا ہے آپ کی لاش کو مسخ کرتا ہے وہ تمہاری خواتین کو شہید کرتا ہے وہ تمھاری عزت نفس کو مجروع کرنے کیلئے بلوچ خواتین پر ہاتھ ڈالتا ہے، وہ پھول جیسے نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بناتا ہے، وہ تمہاری آبادیوں پر بموں اور توپوں سے حملہ کرتا ہے، کھڑی فصلوں کو آگ لگاتا ہے، مال موشیوں کو لوٹتا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ شکایت ہے تو اپنوں سے کہ ان حالات میں جو بلوچستان کے عظیم فرزند فوج کے گولیوں کا نشانہ بن کر موت کی نیند سو رہے ہیں، بلوچستان کی پہاڑ اور وادیاں اشک و خون میں نہا گہیں، ریاستی جبر اور آپریشن سے بلوچستان کے کونے کونے میں معصوم بچے فاقوں سے مر رہے ہیں اور بچنے والے فوج کے توپوں اور بموں کا نشانہ بن رہے ہیں، عسکری قوت اپنی پہلے سے تیار کی گئی منصوبے کے تحت یہ سب کچھ کر رہی ہے یہ عمل حادثاتی طور پر نہیں ہوتے کہ اس کے خلاف کوہی ناراضگی کا اظہار کیا جاہے، بلوچ قوم کو توپوں، بموں اور مسخ شدہ لاشیں اس لیے ارسال کی جارہی ہیں کہ بلوچ سرزمین پر دودھ اور شہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہم سب قیدی ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم میں سے بعض لوگ روشن دانوں اور کھڑکیوں والی جیل میں قیدی ہیں اور بعض کال کوٹھڑی کے قیدی ہیں، فرق صرف اتنا ہے۔