نام نہاد قومی میڈیا، حریم شاہ کے پستان اور ماتم کرتی مائیں! – محمد خان داؤد

275

نام نہاد قومی میڈیا، حریم شاہ کے پستان اور ماتم کرتی مائیں!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

جس دن اس کے سینے میں بہت سی گولیاں اتار کر اسے لہو لہان کرکے خاموش کرادیا گیا، اس دن بھی ملک کی مین اسٹریم میڈیا میں خاموشی تھی۔ اب جب وہ بلوچستان کے بلند و بالا پہاڑوں کے درمیاں بس اک قبر بن کہ رہ گیا ہے، اب بھی ملک کی مین اسٹریم میڈیا میں چُپ ہے۔

جب وہ قتل ہوا اور پیچھے رہ گیا، تب بھی اس کی صحافتی برادری خاموش تھی، اب جب وہ لہو اس سخت گرمی میں بلوچستان کے پہاڑوں پر سوکھ رہا ہے، تب بھی صحافتی برادری خاموش ہے۔ جب اسے پہلی گولی گھائل کر گئی اور وہ ایک سوالیہ نشان بن کر اوندھے منہ گرا، تب بھی اس کا نام پاکستان کی نام نہاد الیکٹرانک میڈیا میں بریکنگ نیوز کیا، کوئی بپر یا پیکچ کی صورت میں نہیں چمکا۔ اب جب وہ رہا ہی نہیں، تو اسے کون یاد کریگا اور میڈیا اسے کیوں کر اپنے بُلیٹن میں یاد کرے گا؟

جب اسے اداس لہو زدہ پہاڑوں سے لایا جا رہا تھا، تب بھی پاکستان کی زرد صحافت میں اس کی کوئی خبر نہ چھپی۔ اب جب اہلیانِ بلوچستان اس کا نام بھی بھول رہے ہیں تو پاکستان اور بلوچستان کا زرد جنرلزم اس کا نام کیوں کر چھاپے گا
سوال یہ ہے کہ کیا وہ صحافی تھا؟
پر اسی سوال میں ایک اور سوال سانپ کی ماند پھن اُٹھائے نظر آتا ہے کہ
،،وہ مشہور صحافی نہ تھا
کیا بس مشہوریت ہی لازم ہے انسان کی جان کی کوئی اہمیت نہیں؟
اگر جان کی اہمیت ہے تو اس کا قتل جنگل میں آگ کی طرح کیوں نہ پھیلا اور اس صحافتی جنگل کو آگ کیوں نہ لگی جس جنگل کا ایک نام انور کھیتران بھی تھا
کیا وہ سستا لہو تھا؟
کیا وہ نامراد لہو تھا
کیا وہ سبز لہو تھا
کیا ان آنکھوں کی کوئی اہمیت نہ تھی جو اس کی یاد میں تر رہیں گی؟
کیا اس ماں کا دل بھی،،ایویں،،تھا جس کا جوان بیٹا بارود کی نظر ہوا
اور پیچھے وہ ماں پہاڑوں کے درمیاں ماتم کر رہی ہے اور اس کا ماتم بھی کوئی نہیں دیکھ رہا
کیا وہ ایسا تھا جس کے لیے پنجابی میں کہتے ہیں،،ایویں؟

کیا خبر ہونے کے لیے حامد میر ہونا چاہیے کہ اسے گھائل کیا جائے اور پھر وہ خبر جنگل میں لگی آگ کی طرح پھیل جائے جس کی زد میں ملکی ایجنسی کا نام آجائے اور حامد میر ساتویں آسماں پہ پہنچ جائے اور ٹھیک ہوجانے کے بعد حامد میر امریکی سفارت کار سے وال کرے کہ پاکستان میں سب سے مشہور انسان کون ہے تو وہ امریکی سفارت کار بلا جھجک کہے
،،حامد میر اور کون

یا خبر ہونے کے لیے مطیع اللہ جان ہونا چاہیئے کہ جب وہ اُٹھے تو پورے ملک میں سوشل میڈیا کی معرفت ایک آگ لگ جائے اور سوشل میڈیا کے بعد وہ خبر روایتی میڈیا پر ہائی پروفائل خبر بن جائے اور فرشتے مجبور ہوجائیں کہ مطیع اللہ جان بارہ گھنٹوں بعد ہی اپنے گھر لوٹ آئے؟

یا خبر ہونے کے لیے کراچی، لاہور، اسلام آباد میں ہونا لازمی ہے کہ اگر ان تین شہروں میں کچھ ہوا تو ملکی میڈیا میں جگہ بن پائیگی، گرنہ اندھے کا ناچ ہوگا اور گونگی کی چیخ ہوگی اور بس۔

پر ایسا کیوں ہے؟ اور ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ٹھیک ہے ملکی محلات میں وہ چیخ نہ گونجے، ٹھیک ہے سرمائیدار کے ٹھنڈے کمروں تک وہ آواز گونج بن کر نہ گونجے، ٹھیک ہے۔ آئی ایس پی آر کے در تک اس کوُک کی رسائی نہ ہو، ٹھیک ہے۔ وزیر اعظم کے کانوں تک وہ خبر، خبر بن کہ نہ پہنچے، ٹھیک ہے۔ صدر کی میڈیا ٹیم اس خبر کو اہمیت نہ دے پر یہ خبر ملکی پریس کلبوں کے دروں پر بھی نہیں پہنچ پائی
یہ خبر ملکی پرنٹ میڈیا کی بھی زینت نہیں بنی!
یہ خبر ملک کے الیکٹرانک میڈیا تک رسائی حاصل نہ کر پائی
اس خبر کے لیے تو سوشل میڈیا پر بھی جنگل بن کر نہیں جلا۔

بس یہ خبر کچھ ٹوئیٹس کی صورت میں جھاگ بن کر اُٹھی اور جھاگ بن کر بیٹھ گئی۔ اس خبر کے لیے کہیں کوئی احتجاج نہیں ہوا، اس خبر کے لیے کوئی پمفلیٹ نہیں لکھے گئے۔ اس خبر کے لیے کوئی ریلی نہیں نکالی گئی۔ اس خبر کے لیے کوئی بینر نہیں لکھا گیا۔ اس خبر کے لیے کسی پریس کلب کے سامنے مظاہرہ نہیں کیا گیا اس خبر کے لیے کسی پریس کلب کے در پر کوئی موم بتی نہیں جلائی گئی۔ کسی صحافی نے اپنے بازو پر سیاہ پٹی نہیں باندھی۔

کوئٹہ سے لیکر کراچی اور ان پریس کلبوں تک جن پریس کلبوں میں شام کے وقت تالے پڑ جاتے ہیں، انور کھیتران کا کوئی ذکر نہیں۔ اس کے لیے کسی اخبار میں کوئی کالم آرٹیکل، اداریہ نہیں لکھا گیا اور مجھے نہیں معلوم کہ کوئی لکھے گا بھی کہ نہیں، کیوںکہ وہ صحافی تو تھا پر گمنام اور یہاں کوریج سے لیکر بھاری بھاری پیکچ ان صحافیوں کے نام ہیں جو نام ور ہیں جو ساتھ ساتھ میڈیا کے لیے بزنس بھی لاتے ہیں اور رینکگ بھی۔ انور کھیتران جیسے صحافی نام نہاد میڈیا کے کس کام کے؟!!

انور کھیتران جیسے صحافی ان نام نہاد میڈیاؤں کو بس خبر دیتے ہیں اور وہ خبر بھی ان میڈیاؤں میں کوئی جگہ نہیں بناپا تی، اس لیے انور کھیتران جیسے سچے صحافیوں کا لہو رنگ سُرخ نہیں ہوتا۔
وہ لہو سبز ہوتا ہے، اس لیئے وہ لحو جب بھونکتی بندوق سے گولی کھاکر گرتا ہے تو کس کو نظر آئیگا؟
پر وہ مائیں
وہ محبوبائیں
وہ بچے جو ان سے منسلک ہو تے ہیں
ایسے قتلوں پر ایک چیخ بن جاتے ہیں
پر افسوس تو اس بات کا ہے کہ وہ چیخ بھی کہیں شور میں گم ہو جاتی ہے اور اس چیخ کی وہاں تک رسائی نہیں ہو پاتی جہاں پر حریم شاہ کے دودھ سے بھرے پستان تنگ ٹی شرٹ میں تو نظر آتے ہیں۔
پر وہ مائیں
اور وہ سرخ لہو نظر نہیں آتا
جس سرخ لہو کو ہمارے نام نہاد قومی میڈیا سے سبز بنا دیا ہے
اور وہ مائیں ماتم کرتی رہ جاتی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ:اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔