مون پریان سین نینھن، ماتمِ یاراں کے گیارہ برس – محمد خان داؤد

131

مون پریان سین نینھن
ماتمِ یاراں کے گیارہ برس

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کہنے کو تو وہ گیارہ سال گزرے ہیں۔ پر کیا سال بس دنوں کے بدلنے، تاریخ کے بدلنے، رات کا دن میں اور دن کا رات میں بدلنے کا نام ہوتا ہے؟ نہیں وہ گیارہ سال نہیں گزرے۔ ان گیارہ سالوں میں، گیا رہ بہاریں گزری ہیں۔ گیا رہ سردیاں گزری ہیں۔ گیا رہ گرمیاں گزریں ہیں۔ کئی عیدیں گزری ہیں۔ کئی سورج ڈھلے ہیں۔ کئی چاند طلوع ہوئے ہیں۔ کئی چاند ڈوبے ہیں۔ کئی بارشیں برسی ہیں۔ پت جھڑ میں درختوں سے کئی پتے جھڑے ہیں۔ پرانے درختوں پر نئے پتے کھلے ہیں۔ پرانے راستوں کے درمیاں پتھر حائل ہوئے ہیں اور پہاڑوں کے بیچ کئی نئے راستے بنے ہیں۔ ان گیا رہ سالوں میں بچے جوان ہوئے ہیں۔ سیاہ بالوں میں کئی چاندی کے تار چمکے ہیں۔ کئی بوڑھے ہوتے جوانوں نے اپنے ہاتھوں سے ان چاندی کے تاروں کو سیاہ رنگ سے ڈھانپنے کی کوشش کی ہے۔ ان گیا رہ سالوں میں جوان ہوتی بچیاں پیا گھروں کو سدھار گئی ہیں۔ وہ مائیں بنی ہیں۔ ان کے دامنوں میں بچے کھیل رہے ہیں۔

اور ہم سمجھ رہے ہیں یہ گیا رہ سال کچھ نہیں
کون جانیں اور کیوں جانیں کہ یہ گیا رہ سال ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی کے کیسے گزرے؟
گزرے بھی کہ نہیں یا بس ٹہر سے گئے؟
ان گیا رہ سالوں میں پیدا ہو تے بچوں کو دیکھو تو ان کی معصومیت چلی جا تی ہے
اور وہ گانے اور گالیاں سیکھ جا تے ہیں
خود سے گالیاں دینے لگتے ہیں اور زور زور سے گانے گاتےنظر آتے ہیں
اور پرانی قبروں کی خاک اُڑتی محسوس ہوتی ہے اور دل سے اک آہ نکلتی ہے کہ
،،کتنی تیزی سے خاک اُڑ رہی ہے
وہ ان گیارہ سالوں میں کئی گھر نئے بچوں سے بھر گئے ہیں۔ ان گیارہ سالوں میں تھر کے کچے چونروں میں کئی بچے ہلاک ہوئے ہیں کئی چونرے بچوں سے خالی ہوئی ہیں۔

کہنے کو گیا رہ سال گزرے ہیں۔ ان گیارہ سالوں میں کئی لوگ دنیا سے گئے اور کئی بچے پیار کی سزا میں اس دنیا میں آئے۔ پر کہنے کو گیا رہ سال گزرے ہیں۔ سوکھی زمیں ہری ہوئی۔ اور ہری زمیں سوکھی۔ سرِ آکاش کئی تارے ٹوٹے۔ اور کئی تارے چمکے۔ گھاس کے کئی تنکے پیروں تلے کچلے گئے اور کئی تنکے نئے اُگ آئے۔ کہنے کو گیا رہ سال گزرے ہیں۔ ان گیا رہ سالوں میں سچی باتوں کی جگہ جھوٹے وعدوں نے لے لی۔ کئی پیر اپنوں کی تلاش میں نکلے۔ اور کئی پیر تھک کر رُک گئے۔ کئی آنکھیں انتظار کی اذیت میں مبتلا رہے۔ اور کئی آنکھیں انتظار کر کر کے مٹی میں دفن ہوگئیں۔ پر وہ آنکھیں مٹی سے سُرخ پھول بن کر نہیں نکلے، کہنے کو گیا رہ سال گزرے ہیں۔ یہ گیا رہ سال گیا رہ دن نہیں ہو تے۔ یہ گیا رہ گھنٹے نہیں ہو تے۔ یہ گیا رہ منٹ نہیں ہو تے۔ یہ گیا رہ سیکنڈ نہیں ہو تے۔ گیا رہ سال گیا رہ سال ہو تے ہیں۔ اگر کوئی انتظار کی اذیت سے گزر رہا ہو تو اس سے تو گیا رہ سیکنڈ بھی نہیں گزرتے۔ پر وہ بیٹی گیا رہ سال گزار چکی ہے۔

انتظار کے گیا رہ سال۔ مُصیبت کے گیا رہ سال۔ التجا کے گیا رہ سال۔ تکلیف کے گیا رہ سال۔ سب کچھ کھو دینے کے گیا رہ سال۔ اللہ کو سب کچھ کہہ دینے کے گیا رہ سال۔ اللہ کے نہ سننے کے گیا رہ سال۔ در پر دستک نہ ہونے کے گیا رہ سال۔ کانوں کو،،سمی،،نہ سُننے کے گیا رہ سال۔ روح کو گھائل کر جانے کے گیا رہ سال۔ روح کی اذیت میں رہنے کے گیا رہ سال۔ خوابوں کے قتل ہوجانے کے گیا رہ سال۔ سمی کی نیند مر جانے کے گیا رہ سال۔ گھر کے ویران ہونے کے گیا رہ سال۔ انصاف کی راہ تکتے رہ جانے کے گیا رہ سال۔ اس کے گھر کو نہ لوٹنے کے گیا رہ سال۔ اس کے پیچھے بچ جانے والے بدن کے کپڑوں کے گیا رہ سال۔ گھر میں رکھے اس کے نئے پرانے جوتوں کے گیا رہ سال۔ اس کے بدن کی خوشبو۔ اس کی باتوں۔ اس کے قہقہوں کے گیا رہ سال۔ اس کے خوش ہونے۔ اس کی محبت بھری ناراضگی، اس کے گُنگنانے اس کی پڑھی اور ان پڑھی کتابوں، اس کے ادھ لکھے سیاسی پمفلیٹ۔اور اس کے قدموں کی رہ جانے والی چاپ کے گیا رہ سال۔ بہت سی خاموشی کے گیا رہ سال۔ ماں کے ماتم کے گیا رہ سال۔ سمی کی زندگی کے رُک جانے کے گیا رہ سال۔ سمی کا کوئٹہ سے کراچی،اور کراچی سے اسلام آباد کے ماتمی جلوس کے گیا رہ سال۔ ماں کا گھر میں رہ جانے کے گیا رہ سال سمی کے مسنگ پرسن کے کیمپس کو آباد کرنے کے گیا رہ سال۔

یہ گیارہ سال پائلو کولہلو کے ناول،،گیارہ منٹ،،نہیں
یہ دکھ اور درد کے گیارہ برس ہیں

کہنے کو گیا رہ سال گزر گئے ہیں۔ پر کہنے کو اک لمحہ نہیں گزرتا۔ اگر گیا رہ سال گزر گئے ہیں تو اس بیٹی کا ماتمِ یاراں کم کیوں نہیں ہوتا؟ اس بیٹی کے آنسو کیوں نہیں تھمتے؟ اس کے گال کیوں خشک نہیں ہو تے؟ کہنے کو گیا رہ سال گزر گئے ہیں۔
پر اس بیٹی کی آنکھوں سے وہ پانی اب بھی کم نہیں ہوا جسے دیکھنے والے آنسو کہتے ہیں
کہنے کو گیا رہ سال گزر گئے ہیں! گیا رہ سالوں میں ندیاں بھی سوکھ جا تی ہیں کنوئیں خالی ہو جا تے ہیں۔ دریا پیچھے ہٹنے لگتے ہیں۔ سمندروں میں وہ تلاطم نہیں رہتا جس سے کنارے ڈرتے ہیں۔

ملاحوں کے بچے بڑے ہو جا تے ہیں، وہ پانیوں میں تیرنے لگتے ہیں، وہ عشق کرنے لگتے ہیں!
کہنے کو گیا رہ سال گزر گئے ہیں۔اور نہیں معلوم کتنے سال اور گزریں؟

پر وہ آنسو کب تھمیں گے جو اک ماں دیوانوں کی طرح اک فریم زدہ فوٹو لیے گلیوں اور شہروں کے پریس کلبوں پر گھومتی نظر آتی ہے۔ ہاتھوں میں تصویر ہوتی ہے۔ آنکھوں میں آنسو کوئی انجان انسان قریب جا کر اس ماں سے پوچھتا ہے یہ کس کی فوٹو ہے۔ تو وہ بیٹی بہت ہی مختصر جواب دیتی ہے کہ
،،یہ میرا بابا ہے ڈاکٹر دین محمد بلوچ!،،

گیا رہ سالوں میں لوگ لوگوں کے گھر بھول جاتے ہیں۔ ان کے بتائے پتے بھول جا تے ہیں۔ بیٹے اپنی ماؤں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرتے ہیں۔ پر وہ گیا رہ سالوں میں ان ماؤں کی قبروں کو بھول جا تے ہیں۔

پر وہ بیٹی اس بابا کو نہیں بھول پائی جس بابا کو پہلے خضدار نے بھلایا۔ پھر بلوچستان نے پھر اس ماں اور بیٹے کو وہ ریاست بھی بھول گئی۔جو بیٹا کہاں ہے سب جانتے ہیں۔پر کوئی نہیں جانتا!
اور بیٹی ماتمِ یاراں میں غلطاں!
کہنے کو گیا رہ سال گزر گئے ہیں۔ وہ بیٹی جس کی ایسی حالت ہے جس کے لیے لطیف نے کہا تھا کہ
،،سر نسریا پاند اُتر لگھو آءُ پرین
مون تو کارن کاندھ
سھسین سکھاؤں کیوں،،
،،پانی لگے پودوں پر پھول کھل آئے، زمستانی ہوائیں چل پڑی ہیں، میں نے تیرے لیے کئی منتیں کی تم کب آؤگے؟،،

وہ نہیں آتا، یہ گیا رہ سال جو گزرے ہیں۔ ان گزرے گیا رہ سالوں میں اس ماں کو یہی انتظار ہے کہ وہ کب آئے گا؟!!!
سب چیزیں بدل گئی ہیں
ان گیا رہ سالوں میں انتظار کی اذیت اور بڑھ گئی ہے۔ اگر کچھ نہیں بدلتا تو اس بیٹی کا دکھ۔ ان گیارہ سالوں میں بہت کچھ رُک گیا ہے اگر کچھ نہیں رُکتا تو اس بیٹی کی برستی آنکھوں سے اشک۔

کہنے کو گیا رہ سال گزر گئے ہیں۔ پر اذیت بھرا تو اک لمحہ بھی نہیں گزرتا تو کوئی جائے اور جاکہ اس ماں سے پوچھے جس بیٹی کے ہاتھوں میں اک تصویر ہے، جس تصویر میں اک مسکراتا نوجوان اپنی بیٹی کو دیکھ رہا ہے اور بیٹی کی آنکھوں سے اشک رواں ہیں۔ اور کوئی بھی اس ماں سے پوچھے گا کہ انتظار کی اذیت کیا ہوتی ہے تو وہ بیٹی اپنے بابا کی تصویر کو چوم کر یہی جواب دیگی کہ
،،مون پریان سین نینھن!،،
میرا جیون میرے محبوب سے جڑا ہوا ہے،،
محبوب کا نہ ملنا ہی انتظار کی دکھ بھری اذیت کا دوسرا نام ہے۔
کہنے کو گیا رہ سال گزر گئے ہیں!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔