لاپتہ افراد یا مزاحمتکار؟ ٹی بی پی اداریہ

411

لاپتہ افراد یا مزاحمتکار؟

ٹی بی پی اداریہ

بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے کی شدت کو پاکستانی حکام اور میڈیا چینلز اکثر انتہائی گھٹا کر اسے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستانی سماج میں کچھ حلقے اس مسئلے کی جانب قدرے حساس رویہ اور نقطہ نظر رکھتے ہیں، لیکن اس لاپتہ افراد پر پاکستانی مسلح افواج کی پیش کردہ تھیوریاں دلچسپی سے خالی نہیں ہیں۔ بلوچستان میں تعینات سابق انسپیکٹر جنرل (آئی جی) فرنٹیئر کور (ایف سی) میجر جنرل نادر زیب نے 2012 میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی دفاع و لاپتہ افراد کو بلوچستان کے بارے میں ایک بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ “بلوچستان میں ایک بھی شخص لاپتہ نہیں، یہ سب افغانستان چلے گئے ہیں (مزاحمتکاروں کا حصہ بننے)۔

جبکہ میجر جنرل نادر زیب سے قبل بلوچستان کے آئی جی فرنٹیئر کور میجر جنرل عبیداللہ نیازی نے عالمی جریدے گارڈین کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ “بلوچستان میں کوئی لاپتہ نہیں، یہ بس ایسے لوگ ہیں، جنہیں شدت پسند ایف سی کی وردی پہن کر اغواء کرتے ہیں۔” ان بیانیوں سے تو یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ لاپتہ افراد ایف سی کی وردیاں پہن کر خود کو خود ہی اغواء کررہے ہیں۔

ان “سازشی تھیوریوں” اور مسلح افواج کی بلوچ سیاسی کارکنوں کو اپنے تحویل میں رکھنے کے تردید کے برعکس، عوامی نمائیندے بارہا اس امر کا اعتراف میڈیا میں کرچکے ہیں کہ بلوچ لاپتہ افراد مسلح افواج کے حراست میں ہیں۔

2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بلوچستان کے بابت ایک مفاہمتی پیکج ” آغاز حقوق بلوچستان ” کا اعلان کیا گیا، اس پیکج کے تحت، اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تمام لاپتہ بلوچ اگلے عید تک رہا ہوکر اپنے گھر پہنچ جائیں گے۔ اگر ایک ملک کا وزیر اعظم یہ اعلان کرتی ہے تو بظاہر یہ اس امر کی تصدیق ہے کہ اسے معلوم ہے کہ یہ لاپتہ بلوچ کہاں ہیں۔ اسی طرح 8 دسمبر 2005 کو اس وقت کے پاکستانی وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ نے ایک بیان میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ بلوچستان سے کم از کم 4000 لاپتہ ہونے والے افراد اداروں کی تحویل میں ہیں۔ یہ لاپتہ افراد 2002 سے 2005 کے بیچ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے اٹھائے گئے تھے۔

کسی لاپتہ بلوچ کو رہا تو نہیں کیا گیا لیکن یہ بیانات اس امر کی تصدیق ہیں کہ کوئی لاپتہ بلوچ سیاسی کارکن نا پہاڑوں میں ہے اور نا افغانستان میں بلکہ وہ حکومتی اداروں کی تحویل میں ہیں۔

سنہ 2012 میں پاکستان سپریم کورٹ میں لاپتہ ہونے والے تین بلوچ نوجوانوں کے ایک کیس کی سنوائی کے دوران اس وقت بلوچستان کے ڈی آئی جی پولیس حامد شکیل نے عدالت کے سامنے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج پیش کی، جس میں ایف سی اہلکاروں کو ان تینوں لاپتہ کیئے گئے بلوچوں کو اغواء کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔ اس کے باوجود وہ بلوچ بازیاب نہیں ہوئے لیکن چند سالوں بعد اسی حامد شکیل کو 2017 میں ایک خودکش حملے کے دوران قتل کیا جاتا ہے۔ اس وقت حامد شکیل بلوچستان پولیس میں اے آئی جی کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے تھے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایشیئن ہیومن رائٹس کمیشن نے 14000 لاپتہ بلوچوں کی ایک لسٹ پیش کی ہے جبکہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا دعویٰ ہے کہ انکے پاس 40 ہزار سے زائد لاپتہ بلوچوں کی فہرست ہے جو دہائیوں سے بلوچستان سے لاپتہ ہورہے ہیں۔ ان ثابت شدہ اعداو شمار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لیکر ہیومن رائٹس واچ تک تمام عالمی ادارے ان جبری گمشدگیوں کے پیچھے پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھ کی جانب اشارہ کرتے آئے ہیں۔

بلوچ مزاحمت کاروں کے حملوں کی شدت میں 2018 سے ایک اضافے کی لہر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ خاص طور پر بلوچستان میں دو دہائیوں سے جاری مزاحمتی تحریک میں “فدائی حملوں” کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ تاہم مسلح افواج اور پاکستانی مفادات پر حملوں میں تیزی کے ساتھ ہی، بلوچ سیاسی کارکنوں اور طلباء پر کریک ڈاؤن کی شدت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس سے لاپتہ افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

ماضی میں یہ رجحان دیکھا گیا کہ لاپتہ افراد کے بابت ایک نئی ” تھیوری” پیش کی گئی اور بلوچ فدائی حملہ آوروں کو لاپتہ افراد قرار دیا گیا۔ اس بار پھر کراچی اسٹاک ایکسچینج حملہ آوروں کو لاپتہ افراد قرار دینے کی افواہیں شروع کی گئیں، جو مکمل غلط معلومات پر مبنی ہیں۔

بی ایل اے کے گذشتہ چار بڑے فدائی حملوں: دالبندین میں چینی انجنیئروں پر حملہ، کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملہ، گوادر میں پی سی ہوٹل پر حملہ اور کے ایس ایکس پر حالیہ حملے میں کل 11 حملہ آوروں کی مکمل شناخت ہوچکی ہے، اور ان میں سے ایک کا نام بھی لاپتہ بلوچوں کے فہرست میں موجود نہیں تھا اور نا ہی ان حملہ آوروں میں سے کسی کے اہلخانہ کو کبھی لاپتہ افراد کیلئے لگائے گئے کسی احتجاجی کیمپ میں دیکھا گیا ہے۔

گوادر میں پی سی ہوٹل پر حملہ کرنے والے حملہ آوروں میں سے ایک، حمل فتح بلوچ کا نام پاکستانی میڈیا بطور لاپتہ شخص دِکھاتی رہی لیکن بی این پی کے صدر اختر مینگل اور وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر نے ثبوت کے ساتھ اس بات کی وضاحت کی کہ حمل بلوچوں میں ایک عام نام ہے۔ لاپتہ افراد کی فہرست میں جو نام درج ہے وہ حمل مری سکنہ کوہلو ڈسٹرکٹ ہے اور حملہ آور کا نام حمل فتح سکنہ کیچ ڈسٹرکٹ ہے۔

اسی طرح پی ایس ایکس حملہ آور سلمان حمل کو بھی لاپتہ ہونے والوں میں سے ایک قرار دیا جانے لگا، لیکن انکی ہمشیرہ نے انڈیپینڈنٹ اردو کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بھائی 8 سال قبل ہی گھر چھوڑ کر بلوچ مزاحمتی تحریک کا حصہ بن گیا تھا، اور اس بات کا علم انکے اہلخانہ کو تھا۔ سلمان کا اہلخانہ کبھی کسی احتجاجی کیمپ میں نظر نہیں آیا۔

ریاستی اداروں کی جانب سے لاپتہ بلوچوں کے بابت جس طرح کا ابہام پھیلایا جارہا ہے، اس سے ان شبہات کو تقویت مل رہی ہے کہ لاپتہ افراد کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ میڈیا کو اس حوالے سے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیئے، غیر مصدقہ خبروں کے پرچار کے بجائے، صحافیوں کو غیر جانبداری اور آزاد حیثیت سے ہر خبر کی تصدیق کرنی چاہیئے۔