لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ کو 4023 دن مکمل

133

لاپتہ افراد وشہدا کے لواحقین کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4023 دن مکمل ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں سول سوسائٹی اور مختلف مکتبہ فکر کے مرد اور خواتین نےاظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر کا کہنا تھا کہ فورسز اور خفیہ اداروں کے آپریشنز اور بلوچ نوجوانوں، طلبا اور سیاسی وسماجی کارکنوں سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی ماورائے عدالت اغواء نما گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں اور لاپتہ بلوچوں کی تشدد زده مسخ لاشوں کی برآمدگی روز کا معمول بن چکی ہے۔ مگر حکمران قوتیں ان زمینی نا قابل تردید حقائق کو کسی کی ذہنی اختراع قرار دے رہی ہیں ۔

وی بی ایم پی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ فورسز کی جانب سے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں جس کی واضح مثال بلوچستان میں جاری فورسز کے آپریشن میں نظر آتی ہے۔ اس دوران فورسز نے گن شپ ہیلی کاپٹروں اور بھاری فوجی سازو سامان اور کثیر نفری کے ساتھ بلوچستان کے مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا جن میں مقامی آبادی کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچا متعدد شہری زخمی ہوئے۔ عام لوگوں کی بڑی تعداد کو حراست میں لے کر غائب کردیا گیا۔ اس بے رحمانہ آپریشن کو جواز فراہم کرنے کے لئے سرکار نے گھروں کوبھی لوٹا۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین اخلاقیات اعلئ انسانی جمہوری اقتدار کے لیےبنائی گئی ہیں۔ اور کوئی غیر اخلاقی غیر انسانی اور غیر جمہوری عمل ہے تو اس بنیادی حق کو سلب اور اس کی بحالی کی جد جہد کرنے والوں کو بزور ریاستی طاقت کچلنے کا رویہ ہے، حملہ آوروں کے خلاف کاروائی کرنے کا عزم اچھی بات ہے لیکن یہ تب انصاف پر مبنی ہوسکتا ہے کہ یہ قابض اور مقبوضہ کے درمیان تفریق کرکے پہلے حملہ کرنے والے کا تعین کرکے کی جائے۔