دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | بلوچستان کی سڑکوں پر……
رات کا کھانا ہمیں دالبندین کے ایک ملازم پیشہ سابقہ (اور اب تک قائم دائم ہونے کا دعویٰ کرنے والے) کامریڈ بلوچ نے کھلایا۔وہ پرانا سیاسی ورکر ہے، سیاست کی برکت سے سوویت یونین میں علم حاصل کیا ہوا ہے۔ مگر اب شہری سیاست سے کٹا ہوا، اورمایوس تلخی سے بھرا ہوا ہے۔ ساری زندگی موجودہ وزیراعلیٰ کی نیشنل پارٹی اوراس سے قبل انہی کی طلبا تنظیم بی ایس او سے وابستہ رہا۔ ایسی پر کٹی پاک روحیں آپ کو بلوچستان بھر میں نظر آئیں گی۔ ہمارے صوبے کے حالیہ عرصے میں تقریر و جلسہ والی سیاست بلاشبہ نیشنل پارٹی ہی کی ہے، اور اب حکومت بھی اُسی کی ہے۔ اُس پارٹی کی دوسری طرف بائیں جانب بلوچ سیاست میں آزادی طلب جنگی محاذ سجا ہوا ہے۔ ہمارا میزبان، محبوبہ کی طرف سے بے وفائی کے شکار نوجوان کی طرح تیز بولتا ہے، ہونٹوں کی اضافی کھینچ تان میں، ہاتھوں کی ضروری اور غیر ضروری جنبش میں………… اور تلخ پانی کے زیر اثر بھی۔ سیاسی تلخی میں بجھی ہوئی گفتگو، جو بلوچستان میں کوئی نادر منظر نہیں ہے۔ بے بسی کا بھی اظہار کہ جونیئر لوگ کروڑ پتی ہوگئے ہیں۔ ساری امید آزادی پسندوں کے ساتھ رکھتے ہوئے بھی وہاں نہ جاپانے کی حسرت دو آتشہ۔ بلوچ کو کس کس کمپلیکس کا شکار بنا دیا گیا ہے!!
اگلی صبح، اوتھل کی صبح۔ سرد، اور برف باری سے لدے کوئٹہ سے آیا مسافر۔ مگر، یہاں تو جنوری کے وسط میں بھی نہ کمرے میں ہیٹر ہے، نہ پانی گرم کرنے کی حاجت ہے، نہ کوٹ سویٹر پہننے کی ضرورت۔ موسموں کے ضدین کا اجتماع ہے میرا دیس۔
یہ، بھوتا نڑیوں اور جاموں کی باہمی سیاسی چپقلش میں واضح طور پر جیتا ہوا جام کا اوتھل ہے۔ سب لوگ اُسی کی مرتب کردہ فضا کی مطابقت میں جیتے ہیں۔ اُس کے ابرو کے اشاروں پہ سارا سیاسی معاشی انتظامی ٹریفک چل رہا ہے۔ نباتات، حشرات اور حیوانات میں سے جو کوئی بھی، اُس متکبر و معتبر ماتھے پہ شکن کے اسباب بنتے ہوں وہ ضلع باہر۔ چپڑاسی سے ڈپٹی کمشنر تک آپ جام پیئیں یا نہیں، مگر آپ کا ’جام پسند‘ ہونا ضروری ہے ……
سڑک کے لیے کوئی بھی جلوس نہیں نکالتا، یہاں سکول کالج قائم کرنے کے مطالبے نہیں ہوتے، یہاں آغازِ حقوقِ بلوچستان بغیر کچھ نظر آئے انجام تک پہنچتے ہیں۔ بلوچستان کے حقوق کا آغاز بھی سردار کی جیب میں ہوجاتا ہے اور انجام بھی۔ ہر پانچ سال بعد سردار کی زمینیں وسیع ہوجاتی ہیں، اُس کے پاس مہیب گاڑیوں کا فلیٹ بڑھتا جاتا ہے، کراچی اسلام آباد، دبئی اور لندن میں اُس کی جائیداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے…… عام آدمی خدا کا مال ہوتا ہے، جیے جارہا ہے خدا کے سہارے۔
…… تو؟۔ تو، اوتھل غیر سیاسی نہیں، حتماً اور کاملاً سیاسی خطہ ہے۔ یہ بقیہ بلوچستان ہی کی طرح سرداری نظام کے خلاف چوں تک نہ کرسکنے والا سیاسی ضلع ہے۔ کیا خضدار غیر سیاسی ہے؟ نہیں۔ کیا مستنگ غیر سیاسی ہے؟ نہیں۔ بلوچستان بھر پور سیاسی، صوبہ ہے۔ یہ سرکاری اور سرداری نظام کا سو فیصد سیاسی صوبہ ہے۔ ہاں، اِن دو مظاہر سے باہر کی سیاست جرم ہے، دونوں مل کر ماریں گے، سرکار بھی سردار بھی۔ میڈیا بھی اِن کا۔ عدالت، طریقت، شریعت سب اِن دو قوتوں کی۔ ایک گرنے لگتی ہے تو دوسری سہارا دیتی ہے، اِسے دیمک کھاتی ہے تو دوسری اس کا شہتیر بن جاتی ہے۔ اختیار (اقتدار) اسی سردار سرکار کی جوڑی کے پاس ہی رہتا ہے۔ اور اُسے اپنے پاس رکھنے کے اُن کے پاس ہزاروں گُر موجود ہیں۔………… دم چھو، پیسہ پلاٹ، دھونس دھمکی، ترغیب، تحریک، ڈنڈا کونڈا، شعر ادب، چوری چکاری، خانہ جنگی، مقدمات و پیشیاں، فتوے غداریاں، حتیٰ کہ قتل و غارت سب ذرائع موجود ہیں۔ لہٰذا، اقتدار ان دو قوتوں سے باہر نہیں جاتا۔ بلوچستان میں جام گردی کو نہ جمہوریت کچھ کہتی ہے نہ ہی مارشل لا اس کا کچھ بگاڑ سکے گا، جب تک کہ …………
ہم پان کی یلغار، صنعتوں، زرعی فارموں سے بھرے مگر طبقاتی سیاست کی مکمل غیر موجودگی میں صبح سویرے بلوچستان کے اس رنگ سے نکل کھڑے ہوئے۔
سسی پنوں کے مقبرے کی زیارت ہماری قسمت میں نہ تھی اس لیے کہ وہ راستے سے دور پڑتا تھا۔ ہم نے مکران کے راستے پہ جانا تھا اور وہ پاک مزار دوسری طرف واقع تھا۔
ہم کراچی والے راستے چار پانچ میل چلنے کے بعد مغرب کی طرف دائیں ہاتھ کو ایک ہائی وے کی طرف مڑے: کوسٹل ہائی وے۔ اس موڑ والی جگہ کو زیر و پوائنٹ کہتے ہیں۔ انسان بھی زورآور ہے، جہاں چاہے ہندسہ اور عدد لکھ دیتا ہے۔ پاگل؟۔ بھلا کوئی جگہ زیرو پوائنٹ بھی ہوسکتی ہے۔ کائنات ریاضی کی طرح حسین تو ہوتی ہے مگر ہندسے تو بہت ہی relativeہوتے ہیں۔ ہم نے ہی انہیں ایجاد کیا اور ہم ہی ان کا اطلاق و استعمال کرتے ہیں۔………… زیروپوائنٹ!!، ہو نہہ۔
گوادر اس نام نہاد زیرو پوائنٹ سے 530 کلومیٹر پر ہے۔ یہ جگہ لاری بھی کہلاتی ہے (کراچی میں جو لیاری ہے، یہ وہ لیاری نہیں بلکہ لاری ہے۔ یہ دونوں یا پھر ایک ہی قدیم لفظ کس زبان کی ہے اور اس کے کیا مطلب ہیں، معلوم نہیں)۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔