دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | بلوچستان کی سڑکوں پر……
بارش‘ بلوچستان کی لائف لائن ہوتی ہے۔ اور یہ لائف لائن کچھ عرصے سے بری طرح کٹ چکی تھی۔ مگر، اُدھر ہم گوادر جانے کے لیے تیار ہوئے اور اُسی روز رات کو کوئٹہ نے ہمیں مہمانی دینے کا فیصلہ کرلیا۔ چرند پرند اور زراعت کے لیے بارش والی حیات آور لائن بحال ہوئی۔ پوری رات زبردست بارش اور برف باری ہوتی رہی۔ اگلی صبح برستی برف میں جو دیکھا تو کوئٹہ وادی کی مکمل اور مہارت کے ساتھ سفیدی ہوچکی تھی۔ زمین اور سڑکیں کسی جھاڑی، اینٹ، روڑے کے دھبہ اور داغ سے پاک، صرف اور صرف برف کی سفید پوشی میں تھے۔ سیر تفریح، قہقہے، مسرور آوازیں، برف کو گولے بنا کر دوستوں پہ برف باشی کرنے، اورمحبوب دوستوں عزیزوں کے ساتھ فوٹو گرافی کرنے کی روایتی سرگرمیوں کے بیچ ہم نے وادی کو خدا حافظ کہا اور پانچ یورپی ممالک جتنے جغرافیائی فاصلے سے پرے واقع، نیلے، شفاف پانیوں والے گوادر کی جانب روانہ ہوئے۔
یوں تو برف باری میں وقت کا ہر پہر سہانا لگتا ہے، مگر اُس کی صبح تو حواس پر قبضہ کرلیتی ہے۔ نشہ طاری کر ڈالنے والے متنوع مناظر عقل و روح کو دل کی سپردگی میں دیے رکھتے ہیں۔ چنانچہ عقل کو جمال کے ہاں رہن رکھ کر، میرے ایک ہم سفر نے مکمل طور پر دل کی حکمرانی کی حالت میں صبح سویرے بہت سارے دوستوں کو یہ ایس ایم ایس ٹیکسٹ کیا: ”گڈ مارننگ، وادی میں برف باری ہورہی ہے۔ تین دن کے لیے گوادر جارہا ہوں، ایک ادبی سیمینار کے لیے“۔ کتنے مختلف جواب آئے۔ اُن جوابات سے کسی کی شخصیت کے بارے میں مکمل فتویٰ تو نہیں دیا سکتا، لیکن ایک اندازہ سا ہوسکتا ہے۔
ایک جواب تھا: گریٹ، تصاویر لیتے جاؤ، سردیوں والی خوراک کھاؤ، اپنا خیال رکھو“۔ …………(اچھا تھا ناں!)۔
ایک اور دیکھیں: ”ماشا اللہ، سفر محفوظ رہے۔ وقت کا شکر ادا کرو کہ اُس نے تمھیں تازہ دم ہونے کا موقع دیا ہے“۔
ایک نے یوں کہا: ”مجھے برف باری سے محبت ہے۔ مجھے گوادر سے محبت ہے، خیر سے جاؤ، سفر بہ خیر…… ٹی وی کوئٹہ میں برف باری دکھا رہا ہے۔ او ووہ ………… میں وہیں ہوں………… مجھے یقین ہے تم میں اب تک جینے کی بہت سی کشش باقی ہے۔ اچھے دوست کی ڈرائیونگ کی مدد لو۔ تم پہلے ایسے جان لیوا سفر کرچکے ہو………… مجھے یاد ہے ذرا ذرا۔ جھیل کنارے، سفید لباس میں ………… کچھ یادیں زندگی سے نکل جائیں تو آدمی جھنجھناتا پیتل رہ جائے(1 Cor 13 Wa St Paul)“۔
مگراُس دوست کی ایک خاتون دوست کی طرف سے اُسے بھیجے گئے اس خشک ترین مردانہ جواب کو بھی پڑھ لیں: ”سفر بہ خیر، سارے اہلِ قلم کو سلام“۔ ایسے جوابات برف باری کے منظر نامے کی ساری جمالیات کو خاکستر، سارے ذائقے کو غارت کردیتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اُس نے کچے کڑوے کریلے کھانے والے کا سا منہ بنا کر موبائل جیب میں پھینک دیا۔
………… اور اب آگے بلوچستان تھا۔ بادلوں کی پناہ میں آئی وادیاں، بارش سے دُھلی پہاڑیاں………… رج رج کے نظارے لو۔ (جن لوگوں نے آخرت، (یا پھر لاہور) میں اپنی جنت بنانے کو یہاں جہنم جاری کررکھا ہے، اُن کا کریہہ تذکرہ اِس حسین صبح کیا چھیڑنا!)۔
سنگت اکیڈمی کا ہمارا وفد، تنظیم کے سربراہ جیئند خان جمالدینی کی سربراہی میں وادیوں کے کنفیڈریشن بلوچستان میں سے رواں دواں تھا۔ سرگرم، پُرجوش، محنتی اور دُھن کا پکا جیئند خان سنگت اکیڈمی کا سیکرٹری جنرل ہے (جو کہ تنظیم کا اعلیٰ ترین عہدہ ہوتا ہے)۔ میچور اور ذمہ دار لیڈر شپ کے تحت کام کرنے میں ہمیں بڑا لطف آتا ہے۔ اس سفر میں جہاز (کار موٹر) بھی اُسی کا تھا، کپتان (ڈرائیور) اور راہبر بھی وہی تھا، اور ہم سواری (سپاہی) بھی اُسی کے۔
خاران کا ہمارا دوست اور وہاں کی سنگت اکیڈمی کا سربراہ ضیا شفیع ساتھ تھا۔ یہ بہت دلچسپ نوجوان ہے، ہم جس بھی بڑے شہر سے گزرتے وہ بتاتا جاتا کہ وہ تو وہاں کی جیل میں سیاست کے جرم میں جیل کاٹ چکا ہوتا ہے: ”یہاں میں تین ماہ تک رہا۔ اِدھر میں نے سات ماہ جیل کاٹی…………“۔ وہ بی ایس او (آزاد) میں رہ چکا تھا۔ بظاہر تو شرمیلا شرمیلا نظر آتا ہے مگر گپ شپ میں کھل جائے تو پھر شرمیلا پن آٹو میٹک طور پر بھاڑ میں چلاجاتا ہے۔
ادب کا متحرک و محنتی سفیر، عابد میر ویسے ہی ہمارے ساتھ تھا، حادثاتاً۔ اُسے تو گوادر ہی ہونا چاہیے تھا کہ وہی تو اصل میں گوادر میلے کے منتظمین کا کھڑ پیچ تھا۔ دوسرے لفظوں میں وہ وہاں مہمان نہ تھا، بلکہ وہاں ہمارا میزبان تھا۔ وہ سارا راستہ اپنے موبائل کے ذریعے گوادر کو ہدایات دیتا رہا۔ اور، وہی دوسرے شہروں سے رواں دواں وفود کی رہنمائی کرتا رہا۔ یعنی ساروں کے بیچ coordination کررہا تھا۔ اس طرح ”گوادر میلہ“ گویا ”سنگت میلہ“ تھا۔ ہم مطمئن تھے۔
کوئٹہ کی برف باری کو بصارت والے بصیروں کے لیے چھوڑ کر ہم وطن کی وسعتوں میں کھوئے (پھیلے) چلے جارہے تھے۔مستنگ و منگوچر تو ہمارے دیکھے بھالے علاقے ہیں۔ مگر زمستانی بادلوں میں یہ علاقہ کتنا خوب صورت بن جاتا ہے، وہ ہم نے آج پہلی بار دیکھ لیا۔ اب پتہ چلا کہ سنت سادھو، عاشق و فلاسفر تنہا سفر کیوں کرتے ہیں، بھیڑ سے کتراتے کیوں ہیں۔ یہاں، ہم خیال و ہم نفسیات احباب کے بیچ ہم جب چاہتے تنہا ہوجاتے اور جب چاہتے مردِ محفل بن جاتے۔ گاڑی سے باہر کِھلی کِھلی فطرت ہم سے ہم فکر بننے، ہم سخن بننے، ہم سفر بننے، ہم رقص بننے کو مچل مچل جاتی تھی۔ بلوچستان دنیا کی خوب صورت لینڈ سکیپ کی سرزمین ہے۔ شالا، بادل اُس کا لازمی حصہ رہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔