دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | بلوچستان کی سڑکوں پر……
ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو گوادر کے بارے میں سال 2000ء کو لکھی گئی کتاب کا یہ تیسرا ایڈیشن ہے۔ اب 2016ء ہے۔یعنی گوادر کے میرے گذشتہ سفر کو سولہ سترہ برس بیت چکے ہیں۔ اکیسویں صدی کے تیزی سے تبدیلیاں لاتے زمانے میں سترہ سال کا عرصہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ پچھلے زمانوں کا ایک شمسی سال، آج سمجھو گھڑی کے برابر ہوتا ہے۔ اِن سترہ سالوں میں ہمارے خطے میں پتہ نہیں کتنے مشرف آصف بنے اور کتنے آصف نوازوں میں ڈھل گئے۔ ان پندرہ برسوں میں یہاں اگر شہروں کی آبادیاں بڑھیں تو غیر فطری اموات سے قبرستان بھی توسیع پاگئے۔ قبریں، ماتمیں، مسخ شدہ لاشیں، جھنڈے نعرے سب کچھ گڈ مڈ ہوکر سرمایہ داری نظام کے مسخ چہرے کو مزید وہشت ناک بناتے رہے۔
اس عرصے میں عالمی سرمایہ داری نظام سے بند ہے بلوچستان میں بھی پیادے بدلتے رہے۔ پیادہ باپ پیادہ بیٹے کو اپنی دستار سونپتا گیا، اور پیادہ بیٹا پیادہ پوتے کو اپنی جگہ دیتا رہا (بلوچستان کیقباد والا معاشرہ ہی ہے۔ یہاں موچی کا بیٹا نائی نہیں بن سکتا، اور کاشت کار کا بیٹا لوری نہیں بن سکتا………… وزیر و مشیر؟ ارے ہوہی نہیں سکتا۔ وزیر و مشیر ہمیشہ سردار کا بیٹا ہی بن سکتا ہے یا پھر وہ، جس کا بتسمہ آب پارہ میں ہوچکا ہو۔………… پشت درپشت!)۔
یہ پیادے یہاں سے وہاں تک اپنی دستار کی جھولی بناتے جاتے رہے اور وہاں سے، وزیر و گزیر بنتے رہے۔
زور آوروں کی بنائی ہوئی اِس فرزندی کو نہ ماننے والے قد آوروں کو کوتاہ قد بنانے کا کام ایک مستقل اور معتبر کام کے بطور چلتا رہا۔ بلوچستان میں فارمولا ہے کہ: اونچا سر، یا تو جھکائے رکھو یا دفن کرادو، ”سوئے یار اور سلامت سر“ بلوچستان میں نا ممکن ہے۔ تیسرا کوئی آپشن پینسٹھ برسوں کی طرح اِن پندرہ بیس برسوں میں بھی نہیں رہا۔………… باقی جو ماوشما بچے ہوئے ہیں، وہ کسی طور دراز گردن نہ رہے۔
اُس زمانے والا گوادر بس ایک خفتہ سا، دور دراز واقعہ، ساحلی قصبہ تھا۔ خاموش، انسانی مداخلت نہ ہونے کے برابر۔ ہماری قومی تاریخ میں گوادر کبھی اہم نہ رہا۔ یہاں تو سومیانی، کراچی، کلات، کاہان اور پھر کوئٹہ ہی دنیا سے تلخ یا شیریں لین دین کرتے رہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان کا کوئی بھی جغرافیائی مقام کسی بھی وقت اچانک اہم بن سکتا ہے۔ اور ما قبل سرمایہ داری عہد میں ”اہم“ کا مطلب یا توجنگ کا ”سبب“ بننا ہوتا ہے، یا اُس کا ”میدان“۔ نصیر خان نوری کے شفیلی (بانسری) بجانے والے چرواہوں کا جغرافیہ ہی اُن کی جواں مرگی کا لوح ِمحفوظ ہے………… ہر پہاڑ، وادی اور ندی نالہ یہ والی قابلیت رکھتا ہے۔ اور اب کے یہ باری ہے: گوادرکی…………
گوادر تو کسی بھی جگہ سے زیادہ ”واژہ وار“ (مالک خور) ثابت ہوا ہے۔ کھاتا جاتا ہے، کھاتا چلاجاتا ہے۔ پندرہویں صدی کے ہمل سے لے کر آخری حاملہ کے ہمل تک۔ ایک حقیرسا سمندری گھاٹ ہمیں کیا فائدہ دے پاتا۔ یہ تو ایک ”سرخور“ ڈائن چلا آیا ہے۔ اُس گھاٹ کا حسن، جوانی اور نو عروسی رعنائی، درآمدی اوباشوں کے لیے زبردست کشش رکھتے ہیں۔ وہ بیرونی اوباش سرمہ سیٹیاں اورسیٹھ بنے اس کے آس پاس منڈلانے لگے۔ بے بس بے وسیلہ بوڑھے مالک کے مرشدوں فقیروں تدبیروں حجتوں کو کوئی کامرانی نصیب نہ ہوئی۔ اُن کے سب کچھ کو آہنی مشینیں اپنے پیروں تلے کچلتی بڑھتی جاتی ہیں۔
ہاں،البتہ چوکڑیاں بھرتے لیلوں کو مشینوں، ان کے دھوئیں اور منجنیقیت کی کیا پرواہ؟ سو مچلتے رہے پن گھٹ پر، اور اُسی کی حدت میں بھسم ہوتے رہے۔ گھاٹ یکایک ایک مرگھٹ بن گیا۔ اب صورت یہ ہے کہ نہ مالک کو اُسے نگلنے دیا جاتا ہے، نہ ہی ہم اُسے خوشی سے الٹی کرسکتے ہیں۔
اور یہ جو طوائف الملوکی آپ کو نظر آتی ہے ناں خطے میں، اور یہ جو ملک الطوائفی آپ کو نظر آتی ہے ناں خطے میں، اس کا ایک بہت بڑا ذمہ دار گوادر ہی ہے۔
پندرہ بیس برس میں کیا کیا تبدیلیاں آگئیں وہاں، ہم پڑھتے سنتے رہے یا ٹی وی پہ دیکھتے رہے۔ جانے کا اتفاق نہ ہوا، یا جرأت نہ ہوئی۔ سوا نیزے کے سورج والے حشر میں ہر شخص اپنے گناہوں میں گردن گردن ڈوبا ہوتا ہے۔ بہت بڑا (یا بہت بڑالفاظ) ہی اِس دوزخی آگ سے اوپر اٹھ کر بین الاقوامیت کی بات کر اور لکھ سکتا ہے!
ابھی وہاں ایک نیم سرکاری ادارے کی جانب سے ”کتاب میلہ“ کا فیصلہ ہوا تو بڑے دانش وروں کے ساتھ ساتھ میرا نام بھی نتھی تھا۔ اور انہی بڑے دانش وروں کا پلو پکڑے مجھے جہاز سے آنے کی دعوت ملی۔………… اور میں نے ہاں کر دی۔ مجھے دو بارہ گوادر کو دیکھنے کا شوق جوتھا کہ دیکھ لوں کس بات پہ ہم تباہ ہورہے ہیں، کیا نئی تبدیلیاں آگئیں؟۔
کچھ عرصے سے میری مسافرتیں بہت محدود ہوچکی تھیں۔ لہٰذا ہر وقت دوستوں کو کہنے لگا تھا کہ مجھے کہیں بھیجو۔ یا چلو مل کر کہیں کا سفر کرتے ہیں۔ مثلاً میں بہت عرصے سے ایران دیکھنا چاہتا تھا اس لیے کہ وہاں بلوچستان کے علاوہ بھی گلستان بوستان جیسی تقدسات موجود ہیں۔ میں نے دوستوں کے ساتھ یہاں وہاں نکلنے کے بے شمار پروگرام بنائے مگر کسی ایک طرف بھی جانے کا ارادہ عملی نہ ہوسکا۔ اب تو ایسا ہونے لگا کہ ماما عبداللہ جان کے ہاں منعقدہ ہفت روزہ ”بلوچستان سنڈے پارٹی“ کی محفلوں میں ہم سفر نہ کرنے کا الزام لگا کر ایک دوسرے کا مذاق اڑانے لگے۔
اب جب اپنے، گوادر جانے کی باتیں ہونے لگیں تو بھی یقین نہ تھا کہ یہ عملی ہوسکے گا………… مگر جب جیئند خان جمالدینی کی طرف سے حامی بھرنے، اور اُسے سڑک کے راستے عملی جامہ پہنانے کی یقین دہانی ہوگئی تو میں جہاز ہم سفروں سے دامن بچا کر اُس کی کار موٹر کی اگلی نشست پہ جا بیٹھا۔ میرے زمینی سفر کو ترجیح دینے کے لیے آپ اس حقیقت پر ضرور غور کریں کہ آکسیجن کی مقدار فضا کی بہ نسبت زمین پر زیادہ ہوتی ہے۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ فضا کا اپنا منظر تو کوئی ہوتا ہی نہیں، سب زمینی آئی ایم ایفی قرضے ہیں۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ انسان زمین پر ہوتے ہیں، جہاز میں تو صرف بالائی طبقے کے لوگ ہوتے ہیں۔ اور آخری بات یہ کہ، جب تک آپ زمین کو خوب لتاڑ نہ لیں، وہ آپ کی شناسائی کا اقرار نہیں کرتی۔
چنانچہ ہم جہاز کا ٹکٹ ایک طرف پھینکنے اور ساتھیوں کے ساتھ سڑک سے جانے کے اپنے فیصلے پر مطمئن تھے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔