اجرک تو خود سوالیہ نشان بنا ہوا ہے
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
چاہے شاہد مسعود سندھی ٹوپی کو گالی دے، چاہے شہزاد گِل اجرک کو بُرا بہلا کہے اس سے کیا ہوتا ہے؟
کیا شاہد مسعود کا سندھی ٹوپی کو بُرا کہنا یا اب وزیر اعظم کے ترجمان جس پر ویسے ہی بہت سے الزام ہیں جن الزاموں میں بڑے الزام یہ ہیں کہ وہ پنجاب میں بوزار کو نظر انداز کیا کرتا تھا اور اپنی ہی ناما چاری اور پبلسٹی میں پورا تھا، جس کی بنیاد پر اسے وہاں سے ہٹایا گیا اور دوسرا الزام یہ کہ وہ دوران سروس قائد اعظم یونیورسٹی میں لڑکیوں کو حراساں کیا کرتا تھا، جس کیس کی انکوائری تحریک انصاف کی سرکار آنے تک چلتی رہی ہےاور اب کیوںکہ تحریک انصاف کی انصافی سرکار ہے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ انکوائری کہاں تک پہنچی؟
جب زرداری صدر ہوتے ہوئے سندھی ٹوپی پہنے کابل میں افغان صدر سے ملا تھا تو زرداری اور ملک ریاض گھٹ جوڑ سے شاہد مسعود نے ایک پروگرام کر ڈالا جس سے جذبات میں آکر سندھی عوام کشمور سے کیٹی بندر تک روڈوں پہ آگئی، شاہد مسعود بھی اپنے اے سی والے اسٹوڈیو میں خوش تھا۔ زردا ری بھی صدارتی محل میں خوش تھا اور پیچھے سندھی قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر ملک ریاض ملیر کی زمیں کو لوٹتا رہا، وہاں کسی کا دھیان ہی نہیں گیا جب دھیان گیا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔
پورا ملیر مقبوضہ ہوچکا تھا، سوائے اس انسان کی بہت قلیل اور مختصر زمیں کے جس کو تاریخ فیض محمد گبول کے نام سے یاد رکھے ہوئے ہے۔
اب کیا اب پورا سندھ بنجر بن چکا ہے۔ پی پی کے پاس لگاتار یہ تیسرا ٹرم ہے اور سندھ دن بہ دن تباہی کی طرف جا رہا ہے اول تو کوئی زرداری اینڈ کمپنی سے پوچھتا ہی نہیں کہ یہ سندھ اتنا تباہ کیوں اور کیسے ہوگیا؟ سندھ میں میڈیا سے لیکر سرداروں، وڈیروں، بھوتاروں کے سب بڑے سائیں کے نوکر ہیں اور میڈیا اپنے اشتہاروں کی دوڑ میں یہ بھی نہیں پوچھتا کہ
،،سندھ ایسا ہی رہے گا یا اس میں کچھ بہتری کی گنجائش ہے!،،
سندھ میں سرداروں سے لیکر میڈیا تک سب بڑے سائیں کے نوکر ہیں تو کون پوچھے گا کہ سندھ میں اتنی تباہی کیوں ہے؟!!
اب بھی سندھ میں ڈر ہے، وحشت ہے، دہشت ہے، کیوںکہ سندھ میں جس کے پاس اختیار ہے چاہے وہ بڑا سائیں ہو، چاہے اس کے چمچے، جن کے پاس بھونکتی بندوقیں اور کمدار، اور کتے ہوتے ہیں، وہ کسی کے بھی دامن سے لپٹ سکتے ہیں۔ کسی کے بھی دامن کو تار تار کر سکتے ہیں۔ وہ کمدار کسی کی بھی جوان بہو، بیٹی لے جا سکتے ہیں کسی کا بھی چہرہ پتھروں سے کچل سکتے ہیں اور وہ بھونکتی بندوقیں کسی کے بھی سینے کو لہو سے بھر سکتی ہیں۔ اس لیے سندھ میں عام آدمی کیا پھر وہ ایاز پلیجو بھی زرداری سر کار سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ سندھ کیوں تباہ ہو رہا ہے؟ تو سندھ کا عام آدمی زرداری اور بلاول کا گریبان کیسے پکڑ سکتا ہے؟
اس کے باوجود بھی سندھ کے لوگ سوشل میڈیا کی معرفت زرداری اینڈ کمپنی کے کرتوت ظاہر کرتے رہتے ہیں، ان سے پوچھتے رہتے ہیں۔ ان سے سوال کرتے رہتے ہیں۔ اب کے شاید کچھ عجیب ہونے والا ہے، اس لیے شہزاد گِل کی طرف سے اجرک کا شوشہ چھوڑا گیا ہے
اور سندھ کے سادھے لوگ اس اجرک ڈرامے میں ایسے بہہ گئے ہیں، جیسے سیلاب آنے پر کنکر پانی کے ساتھ بہہ جاتے ہیں، جب شاہد مسعود نے ٹوپی ڈرامہ کھیلا تھا تو ملیر، سندھ کے ہاتھوں سے نکل گیا تھا اب جب اجرک ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے تو سندھ کو پہلے سے زیادہ احتیاط کرنی ہوگی۔
اجرک اہم ہے یا دھرتی؟
مٹی اہم ہے یا اجرک؟
سندھ کے فقیر شاعر استاد بخاری نے کہا تھا کہ
،،ھُئین مٹی جی چپٹی آھیان
جئے دیس پو دھرتی آھیان!،،
،،ویسے تو بس مٹی ہوں پر اگر میرے ساتھ دیس کی محبت کو جوڑوگے تو دھرتی ہوں!،،
سندھ باسیوں کو اجرک، ٹوپی چاہیے یا دھرتی؟
اگر دھرتی ہی نہیں رہیگی تو ٹوپی اور اجرک کا کیا کریں گے؟
اس وقت ٹوپی تو سندھ کے ساتھ ریپ کرنے والوں کے سروں پہ سجی ہوئی ہے
جو کچے میں بستے ہیں اور بھوتاروں کے حکم پر وہ کام کرتے ہیں، جس سے سندھ آج بھی شرمسار ہے
اور رہی اجرک کی بات، تو اجرک تو خود ہی ایک سوالیہ نشان ہے؟
سندھ میں جب بھوتار کسی ناری کو کاری کرکے قتل کرتے ہیں، تو اس پر ڈالے جانے والے اجرک سوالیہ نشان بن جاتے ہیں
جب سندھ میں کسی جوان کا پیچھا کرکے پولیس اسے فُل فرائی کرتی ہے تو اس کے کاندھوں پہ پڑا اجرک رستے میں گر کر سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔
جب سندھ میں ناحق جرگے کیے جا تے ہیں اور ان جرگوں میں کالے فیصلے کیے جاتے ہیں اور ان فیصلوں میں کسی معصوم لڑکی کو ونی کیا جاتا ہے اور اس پر پڑنے والی اجرک سوالیہ نشان بن جاتی ہے
جب سندھ میں کسی ماں کے بچے کو کتا کاٹ لیتا ہے اور سندھ کی اسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہیں ملتی تو ماں کے سر پر پڑی اجرک بھی سوالیہ نشان بن جاتی ہے
اور جب وہ بچہ تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے تو اس پر پڑنے والے سارے اجرک سوالیہ نشان بن جاتے ہیں
(؟)
سندھ میں موروں کے مرنے سے لیکر معصوم بچوں کے مرنے تک
ملک ریاض کا سندھ کی زمینوں پہ قبضے سے لیکر کارونجھر کے پہاڑ کا ڈائینامائیٹ سے اڑانے تک کے سب عمل سوالیہ نشان ہیں
سندھ تباہ ہے
اور تباہی کی طرف جا رہا ہے
پر ہم پہلے ٹوپی کے پیچھے تھے
اب اجرک کے پیچھے
پہلا اجرک عزت وہ مان مرتبہ تھا
اب تو زرداری نے اسے کفن بنادیا ہے
پھر بھی اجرک
اجرک!
اجرک!
جئے سندھ!
دی بلوچستان پوسٹ:اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔