بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ شہر کے کلی قمبرانی کی کی رہائشی ساٹھ سالہ بزرگ خاتون گل سما ہر صبح اٹھ کر اپنی چھہ سالہ پوتی معصومہ کو ایسے تیار کرواتی ہیں جیسے سکول بھیج رہی ہوں مگر سکول کے بجائے گل سما، معصومہ کے ساتھ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے سالوں سے جاری ‘بلوچ مسنگ پرسن بازیابی کیمپ’ پہنچ کر خاموش احتجاج کرتی ہیں اور شام کو پوتی کو لے کر گھر چلی جاتی ہیں۔
‘مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے وہ 3 مئی 2016 کا دن تھا جب بہت سے اہلکاروں نے ہمارے محلے کو گھیرے میں لے لیا۔ ان میں سے چند ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور میرے نوجوان بیٹے جہانزیب قمبرانی جو اس وقت اٹھائیس سال کے تھے، انھیں پکڑلیا۔ میں نے قران شریف اٹھاکر ان کے آگے ہاتھ جوڑے، پاؤں پڑی، اپنی جھولی پھیلائی، مگر وہ نہیں مانے۔’
‘میرے چھوٹے بیٹے نے ان سے کہا کہ بھائی (جہانزیب) کے پاؤں میں چپل بھی نہیں ہے، انھیں چپل تو پہننے دو، مگر وہ نہیں مانے اور ننگے پاؤں ہی میرے بیٹے کو گھسیٹتے لے گئے۔’
کوئٹہ پریس کے سامنے ‘بلوچ مسنگ پرسن بازیابی کیمپ’ میں موجود گل سما نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے کو زبردستی گمشدہ کرنے والے دن جہانزیب کی بیٹی معصومہ قمبرانی صرف چھہ ماہ کی تھی، اب وہ پانچ سال کی ہونے کو ہے۔
‘ میری پوتی اکثر مجھ سے سوال کرتی ہے کہ میرا بابا کہاں ہے؟ کب آئے گا؟ ہم روز کیمپ پر کیوں بیٹھتے ہیں کیا ایسا کرنے سے بابا واپس آجائے گا؟ میرے پاس اس کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔’
گمشدہ جہانزیب قمبرانی درزی کا کام کرتے تھے اور وہ اپنے رہائشی علائقے کلی قمبرانی کے نزدیک بیبی زیارت کالونی میں درزی کی دکان چلاتے تھے۔
بلوچستان سے زبردستی گمشدہ کیے جانے افراد کی خبریں اکثر آتی ہیں مگر سرکاری طور پر کوئی بھی اعداد و شمار نہیں ہیں کہ اب تک کتنے لوگ لاپتہ ہوچکے ہیں۔
بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرکے شہرت پانے والے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین ماما قدیر بلوچ دعوی کرتے ہیں کہ اب تک بلوچستان بھر سے 53 ہزار لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا ہے۔ مگر آج تک سرکاری طور ان کی دعوے کو کبھی چیلینج نہیں کیا گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے ماما قدیر نے دعوی کیا کہ ‘ اس سال بھی 16 گمشدہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔’
گزشتہ کچھ عرصے سے بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح کوئٹہ کے سریاب روڈ اور کلی قمبرانی سے جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
کچھ جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والوں نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں بھی اسی علاقے سے ملی۔
گل سما نے کہا : ‘میرے بیٹے کے لاپتہ ہونے سے گھر کے حالات خراب ہیں، اپنوں کے بچھڑنے کا درد بھوک سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔ اگر لاش بھی مل جائے تو صبر آجاتا ہے مگر ایک جیتا جاگتا انسان لاپتہ ہوجائے تو اس کا درد صرف گھر والے ہی محسوس کرسکتے ہیں۔ ہم نے کوئی تہوار نہیں منایا، سالوں سے گھر میں ماتم ہے۔’
انھوں نے مطالبہ کیا کہ اگر ان کے بیٹے جہانزیب قمبرانی نے کوئی جُرم کیا بھی ہو تو اسے عدالت میں پیش کرکے سزا دی جائے، مگر کم سے کم اسے منظر عام پر تو لایا جائے۔
ملک بھر سے، خاص طور پر بلوچستان سے لوگوں کے لاپتہ ہونے کا معاملہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ 2012 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں ملک میں لاپتہ افراد سے متعلق جوڈیشل کمیشن بھی قائم کیا گیا مگر اس سے لاپتہ افراد کا معاملہ حل نہ ہوسکا۔
گزشتہ دنوں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد سے چھہ نکات والے مطالبات نہ ماننے کی وجہ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا، ان چھ میں سے ایک اہم مطالبہ یہ تھا کہ حکومت نے ان کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں پر عمل نہیں کیا اور دو سالوں میں سینکڑوں لاپتہ افراد میں سے صرف 18 بازیاب ہوئے جبکہ باقی ابھی تک لاپتہ ہیں۔