ڈیتھ اسکواڈ
تحریر : آصف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں گذشتہ ایک دہائی سے ڈیتھ اسکواڈ اور پراکسیز کا مکمل راج رہا ہے، ان کو ریاست کی جانب سے مکمل اختیار دئیے گئے ہیں، وہ جب چاہیں کسی بلوچ نوجوان، بزرگ، خواتین اور سیاسی و قبائلی عمائدین کے بے حرمتی کریں، اٹھائیں لاپتہ کریں اپنے کسی نجی ٹارچر سیل میں منتقل کرکے اذیت کا نشانہ بنائیں یا ریاستی اداروں کے حوالے کریں، ٹارگٹ کلنگ کا لائنس، چوری و چکاری کا لائنس، منشیات فروشی، جسم فروشی کے اڈوں کا لائنس سب کچھ ان کو دئیے گئے ہیں۔ یہ اتنے بااختیار اور طاقتور ہیں کہ سول انتظامیہ ان سے بات تک نہیں کرسکتا، کمشنر، ڈی سی، ڈی آئی جی، ایس پی رینک کے سرکاری آفیسران ان ڈیتھ اسکواڈز کے رحم و کرم پر ہیں۔ کوئی بھی جرم کریں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں، ڈنک، دزان واقعہ ملک ناز اور کلثوم کی قتل اور برمش کو زخمی کرنا انہی اختیارات کا ایک جھلک تھی، ایسے واقعات بلوچستان میں روزانہ کے بنیاد پر ہوتے ہیں کوئی آواز نہیں اٹھاتا اتنی خوف پھیلا چکے ہیں لوگ خاموشی کو عافیت سمجھتے ہیں۔
یہ ہماری اجتماعی بے حسی کا نتیجہ تھا کہ ڈنک اور دزان جیسے واقعات پیش آئے، اس سے قبل بھی ایسے دلخراش واقعات رونما ہوچکے ہیں لیکن وہ واقعات دبائے گئے ہیں۔ 2011 میں خضدار میں ٹارگٹ کلنگ کے ایک ایسے واقعہ میں معروف ایڈووکیٹ عبدالسلام کو بچی سمیت شہید کردیا گیا، خوف کے باعث کسی نے اس واقعے پر ایک لفظ تک نہیں کہا۔ اپنے آپ کو قبائلی روایات کا امین، چیف آف جھالاوان کہنے والا ثناء اللہ زہری اس کے بیٹے، بھائی اور بھتیجے نے قبائلی، اسلامی اور انسانی روایات کو پامال کرنے کے جو کارنامے انجام دئیے ہیں وہ سن کر انسان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، ہائی وے شاہراہ پر سفر کرنے والی فیملیز کو روک کر خواتین کی زبردستی ریپ کرتے تھے، ایسے بہت سے واقعات اس شاہراہ پر رونما ہوئے ہیں لیکن سب نے خاموشی اختیار کیا، مذہبی و سیاسی جماعتوں سمیت سب نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیا۔ اتنا ظلم، اتنی قہر، اتنی بربریت و سفاکیت لیکن قوم پرستوں سے لیکر مذہبی شخصیات تک سب ظلم پر خاموش رہ کر ظالم کے خاموش حمایت کرتے رہے اور اب بھی مکمل بے حسی و خاموشی ہے۔
یہ نام نہاد قوم پرست جماعتیں خاص کر نیشنل پارٹی بلوچستان بھر میں عوامی ابھار کو دیکھ کر احتجاجوں میں شامل ہورہی ہیں وہ اس طرح شامل ہوکر غیر محسوسانہ طریقے سے اس ابھار اور سیاسی مزاحمت کی نئی لہر کو ٹھنڈا کرنے کی اندرون خانہ سازشیں کررہے ہیں، مکران میں امام بھیل، سمیر سبزل، جیسے کردار انہی کے پیدا کردہ ہیں نیشنل پارٹی آزادی پسندوں کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے ریاست کے ساتھ ملکر پراکسیز بنائی، ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دیئے، خضدار وڈھ میں ڈیتھ اسکواڈز کے سرغنہ شفیق مینگل کےساتھ ملکر انتخابی اتحاد قائم کئے، ایک ساتھ الیکشن لڑے، حافظ سعید کی جماعت کیساتھ بھی نیشنل پارٹی کے رہنماوں کا قریبی تعلقات ہے، یہ تعلقات کس بنیاد پر استوار ہے، ملی مسلم لیگ جماعت الدعوہ کی جلسوں میں نیشنل پارٹی کے رہنما کس حیثیت سے شرکت اور خطاب کرتے ہیں۔ ایسے چیزوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایسے کرداروں کو بے نقاب کرنا چاہیے، سردار اسلم بزنجو کے خضدار میں بہت سے ایسے کارنامے زبان سر زد عام ہے کہ اس نے شفیق، ریاست کے دیگر چھوٹے چھوٹے پراکسیز کے ساتھ ملکر اپنے سیاسی مخالفین کو قتل کروائے ہیں، ڈرایا اور دھمکایا ہے، جب ڈیتھ اسکواڈ کا کوئی کارندہ کوئی جرم کرتا ہوا پکڑا جاتا تو انہیں آزاد کرانے اسلم بزنجو پہنچ جاتاہے، قاتل گروہوں کو شیلٹر فراہم کرتا ہے۔
خضدار سمیت بلوچستان بھر میں ایسے پراکسیز کیساتھ نیشنل پارٹی کی لیڈروں کے تاحال رابطے قائم ہیں۔ نیشنل پارٹی کی لیڈران کے ایسے قومی جرائم کو نظر انداز کرنے کے بجائے انہیں بے نقاب کرنا چاہیے، انہیں کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیئے اور ان سے پوچھنا چاہیئے کہ وہ قومی تحریک کے خلاف کیوں جرم کا ارتکاب کررہے ہیں۔ بلوچستان میں آپریشن اور جبری گمشدگیوں کے لئے فوج اور ریاستی اداروں کو معاونت فراہم کیا ہے۔ ساراوان، جھالاوان اور مکران میں نیشنل پارٹی کے لیڈران بلوچ قومی تحریک اور بلوچ قوم کو کچلنے میں فرنٹ لائن پر رہے ہیں، اس متعلق ڈاکٹر مالک کا بیان ان کے جرائم کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ نواب شاہوانی، کمال بنگلزئی، خالد لانگو، اسلم بزنجو، ساراوان و جھالاوان میں مخبری اور نشاندہی کرنے والوں میں شامل ہیں۔ ڈیتھ اسکواڈز کو ریاست کے ساتھ ساتھ ایسے قومی مجرموں کا بھر پور کمک حاصل رہی ہے اگر ان کا محاسبہ نہیں کیا جائے گا تو ڈنک جیسے واقعات مستقبل قریب میں بھی پیش آتے رہیں گے، ایک طرف نیشنل پارٹی برمش اور ملک ناز کے لئے مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہے اور دوسری جانب اس تحریک میں شامل نوجوانوں کو تھریٹ کیا جارہا ہے۔
بلوچستان میں منظم سیاسی مزاحمت نیشنل پارٹی جیسی پارلیمانی پارٹیوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے وہ اس حالیہ ابھار کو کمزور اور خاموش کرنے کے لئے بھی پورا کردار ادا کررہے ہیں۔ اسی طرح قمبر خان مینگل ریاستی اداروں کی بھر پور معاونت کررہے ہیں باقاعدہ مسلح ڈیتھ اسکواڈ کی سربراہی کررہے ہیں، اس متعلق سردار اختر مینگل اور بی این پی کو اپنا موقف واضح کرنا ہوگا، شفیق مینگل بلوچ قومی مجرم ہے اسی طرح قمبر بھی قومی مجرم ہے، دونوں کے متعلق بی این پی کو یکساں موقف اور رویہ اپنانا چاہیے، یہ گڈ اور بیڈ کا نظریہ اور سوچ ترک کرنا چاہیے۔ ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے حوصلہ شکنی کرکے سماج میں انہیں مزید پنپنے نہیں دیں، یہ عناصر طاقتور ہوکر قوم پرست سیاسی کارکنوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
ریاست بلوچ نیشنل ازم کو کاونٹر کرنے کے لئے بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈز کے ساتھ سیاسی پروپیگنڈے کے لئے نام نہاد سوشلسٹوں کو متحرک کرکے استعمال کررہی ہیں۔ اس طرح خضدار میں کئی چھوٹے چھوٹے گروپس ہیں جن کو ریاست سیاسی کارکنوں کے خلاف استعمال کررہی ہے، ان کے ذریعے سیاسی کارکنوں کو اٹھایا جاتا ہے، ٹارگٹ کلنگ، چوری، ڈکیتی، منشیات فروشی، جسم فروشی، زمینوں پر قبضہ، اغوا برائے تاوان، بھتہ وصولی کا کام لیا جاتا ہے سیاسی جماعتیں ان سماج دشمن عناصر کے خلاف آواز اٹھائیں اور عوام ایسے عناصر سے سماجی بائیکاٹ کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔