دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
گوادر واپس جانے نہیں دیتا!
ہم سمندر کی سیر سے دو بجے واپس ساحل پہ آئے تو عابد کے گھر سے اپنا سامان اٹھایا۔ اس کی محترمہ والدہ اور بیگم نے بڑی محنت اور لگاؤ سے ہمارے لیے شاندار کھانا بنایا تھا مگر ہم، بد بخت جہاز کے لیٹ ہوجانے کے ڈر سے، ان سے ہاتھ جوڑ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے بغیر کھانا کھائے ائیرپورٹ کی طرف دوڑے۔ اللہ اُن کی مہمان نوازی کی شان بڑھائے۔ اللہ بلوچ عورت کی حرمت سلامت رکھے۔ خدا کرے وہ دنیا کی آزاد اور جمہوری زندگی کی نعمتوں سے مالا مال ہو۔
بھئی، یہ لوگ کھانے میں بہت زیادہ مرچیں ڈالتے ہیں۔ چٹپٹے پن کے عاشق ہیں یہ لوگ۔ اچار، مصالحے، رنگ، خوشبوئیں، الاچیاں …… ہم نے جب عابد کی ماں سے مرچیں کم ڈالنے کی فرمائش کی تو اس نے بہت معصومیت سے کہا، ”بھائی، مرچ کے بغیر سالن تو پکانا مجھے آتا ہی نہیں“۔
یہاں ”مذر“ نامی ایک ڈش بہت ہی مقبول ہے۔ یہ ڈش ہم مشرقی بلوچستان والے بھی کھاتے ہیں مگر اِن لوگوں کے مذر میں فرق یہ ہے کہ یہ لوگ اصلی گھی میں آٹا اور کھجوریں ملا کر پکاتے ہیں۔
یہاں خوردونوش کی ساری چیزیں ایران سے آتی ہیں۔ زبردست ٹماٹر، بڑے بڑے سفید پیاز، خشک میوے، تازہ پھل سبزیاں، گھی، آٹا دالیں، پلاسٹک کی چٹائیاں، صابن اور شیمپو۔ واٹر کولر، جوتے، قالین، بسکٹ اور مرغی سب ایران سے آتے ہیں۔ (یہاں ایرانی مرغی کا ایک مخصوص نام بھی ہے، جو ہم یہاں نہیں لکھیں گے)۔ پکی پکائی مچھلی، مٹر اور لوبیا کے ٹِن ایران سے سمگل ہو کر یہاں آتے ہیں۔ پیٹرول، کمبل، الیکٹرانک کا سامان، موٹر سائیکل سب وہیں سے آتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ایران سے اگر رابطہ کٹ جائے تو ہم بھوک سے مر جائیں۔ ہماری حکومت 15,216 مربع کلو میٹر کے گوادر کو خوردونوش کی چیزیں مہیا نہیں کرسکتی جس کی آبادی 160,980 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس لیے کباڑی کے کوٹ پتلون اور ایران کا سامان ہم غریبوں کا گذر بسر ہیں۔
اب کے بار ائیر پورٹ پر بہت چہل پہل تھی۔ ہم بہت سارے پان تُھوک کے تابڑ توڑ حملوں کے بیچ سے بچتے بچاتے گزرے اور بالآخر گیٹ پہ آئے۔ دوستوں سے الوداعی جپھیاں ماریں اور سامان کی بھر پور تلاشی دی۔ یہاں تلاشی کے لیے مشینیں، کیمرے، ایکسرے نہیں ہیں، نا پسندیدہ ہاتھ ہیں۔ (تلاشی لینے والے ہاتھوں سے زیادہ بے عزت کرنے والے اور نا پسندیدہ ہاتھ کوئی اور نہیں ہوسکتے۔ دنیا میں تلاشی، تذلیلِ آدم کا بہت بڑا حربہ ہوتی ہے)۔ یہاں ٹیلی فون نہیں ہے، فیکس نہیں ہے۔ کمپیوٹر نہیں ہے………… بس نام ہے اللہ کا، بول بالا ہے سرداری صوبائی حکومت کا، سالمیت پاکستان کی، بادشاہی اے ایس ایف کی …………۔
بورڈنگ کارڈ لے کر نام نہاد لاؤنج میں آ کر بیٹھ گئے۔ لاؤنج کیا ہے، بیس کباڑی کی سستی پلاسٹک کی کمیشن زدہ کرسیوں پر مشتمل ”کمرہ“ ہے، جس کے باتھ روم میں ہاتھ خشک کرنے والی مشین کے سوا کہیں سے ائیر پورٹ کے لاؤنج والی کوئی علامت موجود نہیں ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی احتجاج کرنے والا نہیں۔ ائیر پورٹوں کا سارا نظام مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہے اور مرکز اسلام آباد، گوادر سے ہزار میل دور واقع ہے۔ کون احتجاج کرے، کس سے احتجاج کرے؟۔ مرکز کے خلاف احتجاج ویسے بھی وطن کے ساتھ حُب کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ پلاسٹک کی کرسی کی منظوری کا عمل بھی ہزار میل دور سے وابستہ ہے۔ (پاور پاور ہوتی ہے۔ اس کی، نیچے والوں میں تقسیم کے لیے صرف اور صرف عوامی جہد اور اُس کی حتمی کامیابی چاہیے ہوتی ہے۔ وگرنہ پاور تو دنیا میں وہ واحد مظہر ہے جواَز خود کبھی تحلیل، کبھی بھی نیچے والوں میں تقسیم نہیں ہوتا)۔
ہم ائیر پورٹ پر بیٹھے رہے۔ تین بج گئے۔ چار بج گئے۔ اور پھر پانچ بج گئے۔ سیف جان کا جہاز ابھی آیا کہ آیا۔ اس کا منیجر بے چارہ یہ تک نہیں جانتا تھا کہ جہاز اس خاص سمے پہ تھا کہاں؟ کوئٹہ میں، تربت میں، راستے میں یا پھر سیدھا کراچی نکل گیا؟۔ اور یا پھر بالکل یہ روٹ چھوڑ کر ملتان کی سواریاں پکڑ کر کوئٹہ سے ملتان چلا گیا؟۔ وہ بے چارہ بار بار ہم سے جہاز کے آنے کی دعائیں منگواتا رہا (جب جہاز کا منیجر سواریوں سے دعائیں منگوانے لگے تو سفر کا انت کیا ہوگا؟ جب سائنس کے راستے روک دیے جائیں تو دعائیں طوالت اور تعداد دونوں میں بڑھ جاتی ہیں)۔ مگر دعائیں تو اسباب و علل ہی سے مطابقت رکھنے پر مجبور ہوتی ہیں ناں!، مانگنے میں بھی اور قبولیت میں بھی………… اور یہاں دعائیں بے کار گئیں۔ پیر مرشد کام نہ آئے، نہ استغفار نہ استسقا۔ نہ تو جہاز تھا، نہ ہی اس کا ہارن۔ سات بجے شام تک اس سنسان ائیر پورٹ پہ (جہاں نہ ائیر ہوسٹسوں کی آمد و رفت دیکھنے میں آتی ہے، اور نہ دیواروں پر چنا گیا کوئی ٹی وی ہمیں فلم دکھانے کے لیے موجود تھا)۔ ہم پاکستان بالخصوص، اور تیسری دنیا بالعموم کی پرائیویٹ سرمایہ داری (بقول یاروں کے ”قومی سرمایہ داری“) کے افلاس، محتاجی، اور فالج زدگی پہ غور کرتے رہے۔ جو لوگ پاکستان میں سوشلزم کی تعمیر کی بجائے ”نجی“ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کر کے فیوڈل ازم کو اس کے ذریعے ختم کروانا چاہتے ہیں، وہ ”زور آور“ ہیں۔ جہاں ریاست جیسے دیو ہیکل ادارے سرمایہ داری کے بحران کے سامنے تنکے بن چکے ہوں وہاں ٹٹ پونجیا، سرکاری بیساکھوں کی پروردہ، منحصر، اپاہج، پیدا گیر، طفیلی اور مفت خورنجی سرمایہ داری منہ توڑ تھپیڑے کیا برداشت کرے گی!!
چنانچہ ہم اسی ”پرائیویٹ“ اور ”قومی“ بورژوازی کے ائیر لائن کے سڑے ہوئے واحد سوزوکی پک اپ کی پائنتی پر بیٹھے، اس کے دفتر واپس آئے، اپنی ٹکٹ کی کینسلی کے پیسے لینے۔ ہم نے اب رسوائی میں ہوائی سفر کے بجائے بذریعہ بس کراچی جانے کا پروگرام بنالیا۔ مگر معلوم ہوا کہ کراچی کے لیے بسیں نہیں چلیں گی۔ اس لیے کہ ساری بسیں ذکریوں کو لے کر زیارت کے لیے تربت گئی ہوئی ہیں۔
ذکری ماما، ہم تمام بقیہ بلوچوں کی طرح بہت توہمات والے لوگ ہیں۔ ”ذکر“ سے ان کا نام نکلا ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنی عبادتوں میں اس کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس عقیدے اور مکران میں بلیدیوں کی حکمرانی میں خاصا تعلق تھا۔ اس کے لیے کہ بلیدیوں کی حکمرانی میں یہ عقیدہ خوب پھیلا اور خوب پھولا۔ گوادر شہر میں 50 فیصد لوگ ذکری ہیں۔ یہاں مچھیروں کی اکثریت ذکریوں کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ذکری ہر لحاظ سے پسماندہ ہیں۔ ان کا پیشوا ”ملئی“ کہلاتا ہے۔ آج کل ان کا ملئی داد کریم ہے جو پسنی میں رہتا ہے۔ (یہ صاحب بعد میں فوت ہوا) ملئی، موروثی عہدہ ہے۔
یہاں گوادر میں یہ لوگ زیادہ تر بلوچ پاڑہ میں رہتے ہیں۔ تربت کے برعکس یہاں ابھی تک ذکری اور نمازی باہم شادیاں کرتے ہیں۔ قبرستان، البتہ الگ الگ ہیں کہ ”نان بلوچ“ ملاّ بالآخر یہ نفاق ڈالنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ ہم نے یہاں مردانہ ذکر خانہ (عبادت خانہ) بھی دیکھا اور زنانہ بھی۔ جی ہاں پروپیگنڈہ کے برعکس ذکری مرد الگ عبادت کرتے ہیں اور عورتیں الگ۔ یار بلوچ معاشرہ میں یہ کہاں ممکن کہ مخلوط عبادت گاہیں ہوں۔ کتنے ناترس ہیں وہ لوگ جو یہ پرو پیگنڈہ کرتے ہیں کہ 27 رمضان کی رات کو مرد و زن بے لباس عبادت نما بداخلاقی کرتے ہیں۔ ناروا اور ناترس لوگ۔ انہوں نے تو ہم بلوچوں کو ایسے پیش کیا جیسے ذکری فرقہ پسماندہ، پہاڑی اور غیرت میں بنیاد پرست بلوچوں کا مذہب نہ ہو بلکہ یہ گویا جدید یورپ کا ہو۔ جھوٹے پر خدا کی ………… (چلو میں ”مار“ لکھتا ہوں)۔
مردوں کا ذکر خانہ مردانہ وجاہت اور بناؤ سنگھار کا نمونہ ہے، جب کہ عورتوں کا ذکر خانہ بلوچ عورت کے سماجی مقام کی طرح بد حال۔
بلوچی میں صبح کی عبادت کو ”بامسار“ کہتے ہیں جو ایک گھنٹہ کی ہوتی ہے۔ جب کہ ظہر اور عشا کو ذکر ہوتا ہے۔ جمعہ کو نماز نہیں ہوتی۔ میں نے جب کراچی میں اپنے ایک غیر مسلم دوست کو بتایا کہ ذکری کا سجدہ پانچ منٹ لمبا ہوتا ہے تو اس نے مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے کہا، ”جس کے سجدے اس قدر طویل ہوں، میں اُس میں شامل نہیں ہوسکتا“۔
ذکری اب ہمارے سنی ملا کے اکسانے اور اشتعال دلانے پر بالآخر ایک واحد مذہب بن جائے گا، وگرنہ اب تک تو وہ مختلف علاقوں میں مختلف انداز میں عبادت کرتے ہیں۔ اس کی کوئی مرکزی اور واحد شکل نہیں ہے۔ کوئی بلوچ کہاں پڑا ہوا ہے، کوئی کہیں رہائش پذیر ہے اور رسل و رسائل ہیں نہیں۔ لہٰذا ہر وادی نے اپنی الگ ذکری گیری قائم کر رکھی ہے۔ جونپوری صاحب کے بارے میں ان میں متضاد باتیں ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہ آیا تھا مکران، کچھ کہتے ہیں کہ وہ خود تو کبھی نہیں آیا مگر اس کا کوئی چیلا شاگرد آیا تھا۔ اسی طرح کچھ کہتے ہیں کہ وہ شیعت کے قریب ہیں۔ کچھ کو تو کوئی بات معلوم ہی نہیں۔ (ارے بابا اکثریت کو کچھ معلوم نہیں)۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔