سورج کا شہر (سفر نامہ) | قسط 20 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

591

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری

سمو راج کی حالت

جناب علی بلوچ نے چار بجے شام کو انسانی حقوق سے دلچسپی رکھنے والی خواتین سے میٹنگ کا اہتمام کیا تھا۔ بلوچ خواتین جو انسانی حقوق کا شعور بھی رکھتی ہیں، اور ان کے حصول کے لیے جدوجہد میں بھی شامل ہیں۔ ان عورتوں میں معمر خواتین بھی تھیں، درمیانی عمر والی بھی، اور میٹرک پاس بچیاں بھی۔ ساحلی بلوچ عورت کوئی ”صنف نازک“ا ور ”ضعیفہ“ نہیں ہوتی، بلکہ پاکستان بھر میں سب سے بے باک، بہادر اور کھل کر بات کرنے والی عورت دیکھی ہے ہم نے، بلوچ ساحل پہ۔

بالخصوص نوجوان (بیاہی اور بن بیاہی دونوں) لڑکیاں بہت ہی پر عزم، بہادر اور مصمم تھیں۔ ان کی آنکھوں میں موجود سرگرم اور متجسس چمک واضح بتا رہی تھی کہ موجودہ دور سے غیر مطمئن اور ایک روشن مستقبل کی متلاشی ہیں۔ آئیے میٹنگ میں موجود عورتوں کے نام پڑھتے ہیں جس سے بلوچ ساحل کی عورت کی شخصیت کے بارے میں کچھ نہ کچھ اندازہ ہوسکے گا۔
آسیہ بانو، شبانہ گل، گلشن کریم بخش، شائستہ کریم، نسرین حمید، صاعقہ مولا بکش، ہماظفر، حنا نظرت، جمیلہ محمد حیات، شمسا تون نظرت، نور جہاں محمد حیات، شکیلہ اصغر، عاجر جمیلہ، رضیہ، شہناز مراد (جے وی ٹیچر)۔ سلمہ طارق، روزتوں عژمان، سلمہ حیات، سمیرا حمید، کوثر شاہ داد، ملک داد محمد، یاسمین وحید، سارہ ھامد، زرینہ شئے علی، گلشن نور بخش (جے وی ٹیچر)، نجمہ نور بخش، حفیظہ عابد علی، یاسمین، صبا عبداللہ، زبیدہ محراب، عسیان عثمان، گنجا تون شاہ داد، نازل کریم بخش۔
ان 33 بلوچ عورتوں نے بڑے تحمل اور صبر سے مشرقی بلوچی میں میری گزارشات سنیں۔ صرف گوادر شہر میں 33 باشعور، منظم اور جدوجہد کرتی عورتیں!!۔ فیصدی حساب لگائیں تو لاہور اور کراچی جیسے ترقی یافتہ مراکز میں بھی یہ شرح نہ ملے گی۔ بلوچ عورت جمہوری تحریک کی راہنمائی کی اہل ہے!!۔ ان خواتین نے بہت ہی سرگرمی سے اپنے مقامی مسائل کی نشان دہی کی۔ انہیں استحصالی معاشی نظام کے ساتھ خوب صورتی سے جوڑا اور ان کے حل بتائے۔ ان کی اپنی غیر مصنوعی اور میٹھی بلوچی اور اردو سے میں یہ گوہر اپنی نوٹ بک میں لکھ سکا تھا۔

* یہاں سوئی گیس نہیں ہے۔ جس کی سنگینی کا احساس بقول ان خواتین کے مردوں کو ہو ہی نہیں سکتا۔ آگ چولہے کا مسئلہ جو ہے۔
* ڈیم بھرا ہوا ہے مگر پھر بھی پینے کے پانی کی سپلائی بہت کم ہے۔
* ڈیزل نہیں ہے، سو بجلی نہیں ہے۔ ”بھئی ہم بجلی کا فیس بھرتا ہے، بجلی دیو“۔
* بجلی نہیں ہے، میری بچی کو مچھر کاٹتا ہے، وہ ملیریا ہو جاتی ہے اور میرے پاس دوائی کے
پیسے نہیں ہیں۔
* گورنمنٹ گرلز جدید پرائمری سکول میں تعداد 200 ہے۔ ٹیچر صرف دو ہیں، کمرے
صرف دو ہیں، پنکھا نہیں ہے، کتابیں نہیں دیتے۔
* گرلز ہائی سکول میں سائنس ٹیچر نہیں ہے، مستقبل کی کیسی نسل تیار ہوگی؟
* فقط ایک گرلز ہائی سکول ہے۔
* سکول کے لیے ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔
* بے روزگاری ہے۔
* نالیاں گندی ہیں۔
* گلی کی صفائی نہیں ہے، جمادار نہیں ہے، کچرہ دان نہیں ہے، کہتے ہیں سمندر میں کوڑا
نہیں پھینکو تو کہاں پھینکیں۔
* ووٹ لینے آتے ہیں تو ماسی بولتے جاتے ہیں، بھابھی، گہار۔ بعد میں گوادر میں ہوتے
نہیں تو پہچانیں گے کیا؟

شام چھ بجے مردوں کے ساتھ ملاقات تھی۔ ہم وہاں کے لیے روانہ ہوئے، راستے میں علی بلوچ کی راہنمائی میں ہمیں چند باتیں مزید معلوم ہوئیں؛ یعنی بلوچستان کے دوسرے لوگوں کی طرح زندہ دل گوادری بڑے رنگین ہوتے ہیں۔ ان کے کپڑے رنگین، درو بام رنگین، یکدار و لائچ رنگین، مزاج رنگین، (بلوچوں کا تو معبود بھی رنگین، کہ بقول جوانسال بگٹی ”رنگی بادشاہ“)۔ بہت شوقین مزاج لوگ ہوتے ہیں ہم۔!

وبائی اردو کیسٹوں کی خطرناک صورت حال ہم نے یہاں گوادر میں دیکھی۔ جگجیت کی غزلیں ہر کیسٹ بردار گاڑی میں کُوکتی سنائی دیتی ہیں (اور بلوچ کی ساری گاڑیاں کیسٹ بردار ہی ہوتی ہیں)۔ بلوچی میں سبزل سامیگی بہت ہی مقبول ہے۔ موجودہ گلوکاروں میں نور خان بزنجو، نصیر بلوچ، عارف کی آوازیں پاپولر ہیں۔ نصیر اور نورخان کے 18,18 کیسٹ آئے ہیں۔ نورل بھی یہاں کافی مقبول ہے۔

دو ایرانی بلوچ گلوکارائیں شمشک اور شراتون بھی اچھی خاصی سنی جاتی ہیں۔ بلا کی لوچ اور جدت ہے ان دونوں گلوکاراؤں کی آواز میں۔ ان کے کئی کئی والیوم میوزک کی دکانوں میں دستیاب ہیں۔
نڑسر سے لوگ واقف نہیں۔

یہاں انسانی حقوق کی تنظیم کے پرچم تلے منظم اجتماع میں لوگوں نے کہا:
* چوریاں عام ہیں۔ دکانوں پر ڈاکے پڑنے لگے ہیں، قتل کی وارداتیں بڑھتی جا رہی
ہیں، کسی قاتل کو پکڑا نہ گیا۔
* پولیس والے چرسی ہیں، ہیروئنی ہیں۔
* محکموں میں ترقیاں نہیں ہوتیں۔ مقامی افراد کو روزگار دینے کی بجائے باہر کے لوگوں کو
نوکری دی جاتی ہے۔
* گیس کمپنی میں 65فیصد لوگ باہر سے لائے گئے ہیں۔
* بھرتی شدہ مقامی لوگوں کو بہت تنگ کیا جاتا ہے۔
* مقامی لوگوں کو گیس کمپنی تنخواہ کم دیتی ہے باہر والوں کی بہ نسبت۔
* گوادر سے پسنی تک پانی نہیں ہے۔ لوگ کئی کئی ہفتوں تک نہا نہیں سکتے۔ پینے کے
لیے ترستے ہیں۔ پانی خریدتے ہیں، پانی پہ لڑتے ہیں۔ بندھ باندھ کر پانی جمع کیا جا
سکتا ہے مگر سرکار نہیں کرتی۔
* انٹر کالج کو ڈگری کالج اپنے وزیر تعلیمی کے دور میں ڈاکٹر مالک نے بنایا تھا۔ اسے
با ضابطہ ڈگری بنا یاجائے۔
* بے روزگاری عام ہے، نوکریاں دی جائیں۔
* سمندر بردی کا مسئلہ شدید ہے، سمندری کٹاؤ سے مکانات تباہ ہو رہے ہیں، حفاظتی
پشتے بنائے جائیں۔
* گھنٹہ بلڈوزر ٹریکٹر نہیں ملتا۔
* زرعی بینک قرضے نہیں دیتا۔
* کلاس فورتھ کی ملازمت کے لیے بھی انٹرویو کوئٹہ میں ہوتے ہیں۔ بہت پیسہ خرچ ہوتا
ہے، نہ بس ہے، نہ ٹرانسپورٹ اور نہ ملازمت ملتی ہے۔ انٹرویو یہیں گوادر میں ہونے چاہئیں۔
* زمینوں پر با اثر افرد نے قبضہ کر رکھا ہے، انہیں وا گزار کیا جائے۔
* گوادر میں مقامی لوگوں کے لیے رہائشی جگہ نہیں ہے۔ مقامی افراد کوپلاٹ الاٹ
کیے جائیں۔
* کوسٹ گارڈ بہت تنگ کرتی ہے۔

کچھ اضافی سفارشات تو مجھ حقیرپُر تقصیر نے بھی مرتب کیں:
* ساحلی مینجمنٹ کو قومی، صوبائی اور مقامی پالیسی سازی اور منصوبہ بندی میں مکمل حصہ ہونا چاہیے۔
* آبادی کی صلاحیتیں اور مہارتیں بڑھائی جائیں تاکہ ہاربروں، لینڈنگ جیٹی اوں اور ساحلی حفاظتوں کے لیے سروے، منصوبہ بندی، تعمیر اور مرمت میں مناسب افرادی قوت اور ٹیکنالوجی کو ترقی دی جاسکے۔ اس مقصد کے لیے میرین انجینئرنگ میں کمرشل ماڈلز، سمولیشن وغیرہ جیسی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی حاصل کی جائے اور یہاں استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
* ساحلوں کی دیکھ بحال اور مرمت کے لیے تلچھٹ کے جمع ہونے اور جہاز رانی کے چیلنجوں کے بین الاقوامی ماہرین اور ایجنسیوں کے تعاون سے مطالعے کیے جائیں تاکہ سب سے بہترین ممکنہ اور مناسب دام کی ٹیکنالوجی حاصل کی جائے تاکہ چینل میں ایک جہازرانی کے قابل گہرائی برقرار رکھی جاسکے۔
* پور ے ساحل کے ساتھ ساتھ پکی سڑکیں ہونی چاہئیں۔ ان سے ماہی سے وابستہ صنعتوں میں سرمایہ کاری کے راستے کھل جائیں گے۔


مکران میں کسی سیاسی پارٹی کا کوئی عورت ونگ نہیں ہے (ان کے پاس تو کسان اور مزدور ونگ بھی نہیں ہیں!)۔ یہاں عورت کی معاشی آزادی کو ابھی تک سماجی آزادی میں بدلا نہیں گیا اور یوں یہاں پہ باقی بلوچستان کی طرح مرد کی بالادستی والا سماج قائم ہے۔ عورتیں ماہی گیری کے علاوہ زراعت، لائیو سٹاک، قالین بافی، چمڑے اور پیش کا کام کرتی ہیں۔ یہاں خواتین دکان چلاتی ہیں۔ کچھ عورتیں لیڈی ہیلتھ ورکرز بنی ہیں اور کچھ سکول ماسٹری میں آ گئی ہیں۔

ساحلِ بلوچستان وہ واحد مقدس خطہ ہے جہاں یک زوجگی کا رواج ہے۔ یہاں نہ تو مٹنٹر کا رواج ہے نہ نیخ کا۔ یہاں بھی بلوچستان کے دوسرے علاقوں کی طرح (گو کہ ذرا مختلف شکل میں) لب کا پیسہ ادا کر کے ہی شادی کی جاسکتی ہے۔ رشتہ لڑکی کا باپ طے کرتا ہے، ماں نہیں۔ لب میں سونا ( سھر)، زمین (میراث)، دلہن کے بیس جوڑے کپڑے (پرداچ) وصول کیے جاتے ہیں۔ مگر یہ زمین اور سونا ہر دوسرے بلوچوں کی طرح لڑکی کا باپ ہڑپ نہیں کرتا، یہ لب (زمینی جائیداد اور زیورات) دلہن کی ذاتی ملکیت بن جاتا ہے، جس کو استعمال کرنے کا ہر طرح سے اُسے حق ہوتا ہے۔ عورت زندگی بھر صاحب ِ جائیداد ہوتی ہے اور شوہر اُس پر منحصر۔ اسی لیے دوسری شادی رچانے کے لیے اس کے پاس لب ہوتا ہی نہیں۔ یہ شوہر اپنی بیوی پر بے جا تشدد وغیرہ بھی نہیں کرسکتا۔ باالفاظ دیگر مکران کی عورت بلوچستان کی اپنی دوسری بہنوں کی بہ نسبت زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہوتی ہے۔ وہ وراثت میں بھی حصہ پاتی ہے۔ یہاں خاوند کی حیثیت بیوی کے مقابلے میں ثانوی ہوتی ہے۔ اس کے پاس جو کچھ تھا، وہ اس نے لب میں اسے دے دیا ہے اور چنانچہ وہ اپنی بیوی کا ایک لحاظ سے دست ِنگر ہوتا ہے۔ اس پوزیشن میں اولاد پر ماں کا اثر و نفوذ زیادہ ہوتا ہے۔

طلاق اگر عورت چاہے تو لب سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ طلاق کوعورت کے لیے برا نہیں سمجھا جاتا۔ اگر خاوند اُسے طلاق دے تو لب کی جائیداد عورت کی ہو جاتی ہے۔ بیوہ کو اس کے خاوند کے ترکے کا حصہ ملتا ہے، لہٰذا مکران میں امیر بیوائیں بہت ہوتی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔