سنہری سلاخیں – عمران بلوچ

270

سنہری سلاخیں

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شمی سو رہی ہو؟
نہیں! شمی نے کروٹ بدلی، اسکی کالی زلفیں اسکے چہرے کو ڈھانپ چکی تھیں، جنہیں حمل نے اپنے ہاتھوں سے ہٹایا، اسکی بڑی کالی بادامی آنکھوں کو دیکھ کرحمل ان میں ڈوب گیا۔
کیا ہوا حمل خاموش ہوگئے؟
کچھ نہیں میری شمو بس کچھ پل کو سب کچھ بھول چکا تھا۔۔۔
حمل بستر پر ہی چار زانو ہوکر اپنے سرہانے سے ایک کتاب اٹھایا، کتاب کے جلد پر ایک تصویر چسپاں تھی، تصویر میں ایک چڑیا سنہرے رنگ کے سلاخوں میں قید تھی۔

کمرے میں کم روشنی کی وجہ سے حمل بستر سے اٹھا، کمرے کے کونے میں ایک موم بتی ٹمٹما رہی تھی، اسی کے پاس ایک کرسی اور میز تھا، حمل نے اٹھ کر کتاب میز پر رکھا، دروازے کے پہلو میں ایک مٹکہ اور اس پر ایک گلاس الٹا رکھا ہوا تھا۔ حمل مٹکے کے پاس پہنچا، گلاس میں پانی بھر کر پینے لگا۔

حمل مجھے بھی پانی پلانا گلہ خشک ہے
حمل نے اپنا پہلا گھونٹ پی کر گلاس نیچے کی اور شمو کی طرف دیکھ کر بولا
میرا جھوٹا پیوگی یا ختم کردوں
شمو نے ہلکی سی مسکان دی اور ناز و نخرے سے بولی، کبھی ایسا دن نا آئے کہ شمو اپنے حمل سے نخرے کرے۔
حمل نے آدھا گلاس پانی شمو کو تھمایا، جہاں سے حمل نے پانی پیا تھا، بالکل وہیں سے شمو اپنے ہونٹ رکھ کر اپنی ترچھی نظروں سے حمل کی جانب دیکھ رہی تھی۔

حمل مسکرا کر میز کی طرف بڑھا جہاں پر اس نے کتاب رکھا تھا۔
حمل مجھے بھی وقت دو میرے دل میں بھی کئی برسوں کی باتیں ہیں، جو تم سے کرنا چاہتی ہوں پر تمہیں تو وقت ہی نہیں میرے لیئے۔
حمل کتاب کے درمیان انگلی پھنسا کر شمو کی طرف پلٹ کر بولا
شمو تم میری دنیا ہو، تمہارے جہاں میں آکر سب بھول جاتا ہوں، ہماری دنیا جہاں میں تم اور ایک محبت کی سلطنت ہے، جہاں انسان کو انسان سے بغیر کسی مطلب کے محبت ہے، جہاں کسی کے حق کو بےجا نہیں مارا جاتا، جہاں ہر طرف امن کے ہی گیت گائےجاتے ہیں۔
پر شمو حقیقت میں ایسا نہیں، میری شمو ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہاں اتنا کچرا لوگوں کے ذہن اور دماغوں میں ہے اتنا تو کچرےکے ڈھیر پر نہیں۔

اس سماج کو تبدیل کرنے کے لیئے ہمیں اپنے بہت سےخواہشات کو قربان کرنا ہوگا، ہمیں جنگ لڑنا ہوگا، طاقتور سے جیتنا ہوگا، اسکےلیئےعلم کی ضرورت ہے، شمو جنگ کے میدان میں بغیرہتھیار کے اترنا سمجھو شکست کو خود ہی دعوت دینا ہوگا۔ جنگ کا لفظ سن کر شمو کے چہرے پر خوف کے تاثرات ابھرنے لگے، حمل نے بھی اسکی بےچینی بھانپ لی۔

شمو میں نے جنگ تو لڑنی ہے پر الفاظ کے ساتھ، میری جنگ کسی بڑی طاقت کےساتھ نہیں، اپنوں کے ساتھ ہے جن کے ذہن میں اب کچھ باقی رہا نہیں۔ انکےضمیر کو جھنجوڑنا ہے، انکو خواب خرگوش سے جگانا ہے، بغیر الفاظ علم و عقل کے میں اس جنگ میں فتح یاب نہیں ہوسکتا۔ شمو جو کہ اپنےحمل کی باتیں بڑے غور سے سن رہی تھی، اپنے ہاتھوں کے ہتھیلیوں سے اپنا چہرہ سمایا ہوا تھا۔

حمل نے اپنی بات ختم کی تو کچھ آوازیں باہر سے آنے لگے، شمو اٹھ کر دروازے کی طرف چل پڑی، اس سے پہلے ہی حمل دروازے کے پاس پہنچ گیا، دروازہ کھلنا ہی تھا کہ کسی نے باہر سے پوری طاقت سے دروازے پہ لات مارا، حمل خود کو سنبھال نہیں پایا اور پیچھے کی طرف گر پڑا۔

شمو اپنے حواس ہی کھو بیٹھی، سمجھ نہیں پارہی تھی کہ کیا ہوا، کوئی لمبے قدوقامت کا شخص اندر آیا اسکے پیچھے پانچ لوگ اور اگئے اور آخر میں ایک اور شخص بھی داخل ہوا، جو قد و قامت میں ان سے کم تھا۔

ایک نے حمل کے بالوں کو پکڑ کر اسکا سر اوپر کیا اور پوچھا یہی ہے؟ چھوٹے قد والے شخص نے بغیر کچھ کہے سر ہاں میں ہلایا، حمل نے مزاحمت کی خود کو چھڑانے کی کوشش کی، تو ایک شخص نے نا مناسب الفاظ استعمال کرتے ہوئے اسکے کمر پر زور سے لات مارا، تو کسی نے اسے بازو سے پکڑا کسی نے کالر سے اور اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔۔۔

شمو پر عجیب کیفیت طاری تھی، بڑی ہمت کرکے اس نےخودکو حمل کے اوپر گرانا چاہا، پر ایک کمزور جسم ہٹے کٹے جسموں کے مقابلے کیا جنگ۔ ان اشخاص میں سے ایک نے شمو کے بالوں کو پکڑ کر اسے دیوار سے لگا کر اپنی کہنی سے اسکی گردن دبا کر بولا
اگر اب زیادہ اچھلوگی تو تمہیں بھی ساتھ لے چلیں گے، شمو کی طاقت ہی چلی گئی، دوپٹہ کہیں پڑا، چپلیں کہیں، شمو آوازیں دیتی رہی، کوئی مدد کردے، اسکے حمل کو بچانے کی کوئی تو اسکو واپس لادے، اسکا حمل بے قصور ہے، گاڑیوں کی آوازیں آئیں، سب کچھ خاموش ہوا۔ سکوت طاری ہوئی، ہر طرف چلتی ہوا بھی بند ہوگئی، چاند بھی خود کو بادلوں میں چھپا چکا تھا۔۔۔

شمو بے حواس دروازے پہ بیٹھی تھی، کچھ لوگ اسکے اردگرد جمع ہوئے، ایک عورت نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو شمو کے منہ سے ایک بار پھر حمل کا نام نکلا، دیوار کے سہارے وہ اٹھی پتہ نہیں کب اسکی ہتھیلیاں زخمی ہوئیں تھیں، ہاتھوں پر مہندی سے بنے نقش (وہ نقش بھی حمل نے خود ہی اسکے ہاتھوں پر بنایا تھا)خون سے دھل چکے تھے، کلائیوں میں پہنی ہوئی کچھ چوڑیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، باقی جو بچے تھے وہ وہیں اس نے کلائیوں سے اتار کر لوگوں کے سامنے پھینک دیا۔

وہ خود اپنے کمرے کی طرف مڑی، کمرے میں پہنچ کر دیکھا موم بتی کی آخری سانسیں تھیں، میز کے نیچے ہی حمل کا کتاب پڑا تھا، دروازے کو کونڈی لگا کر اس نے کتاب اٹھایا، اپنے سینے سے لگا کر بسترپر جیسے ہی نڈھال ہوئی وہاں حمل کے ہاتھوں سے جلائی موم بتی بھی بجھ گئی۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔